سوال (1120)

تراویح کے بعد وتر میں لمبی لمبی دعائیں مانگی جاتی ہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

اس حوالے سے عربی زبان میں ایک مختصر مگر جامع تحریر نظر سے گزری جو یہاں پیش خدمت ہے:

قرَّر الإمام النووي رحمه الله أن من السُّنة أن يدعو المصلي في دعاء القنوت بما ورد عن النبي – صلى الله عليه وسلم- من الدعاء المشهور: اللهم اهدني فيمن هديت … إلخ.
وإن زاد على ذلك الدعاءَ الوارد عن عمر – رضي الله عنه- وهو قوله “اللَّهُمَّ إنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنُؤْمِنُ بِك، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ ، اللَّهُمَّ إيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ ، وَإِلَيْك نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ وَنَخْشَى عَذَابَكَ إنَّ عَذَابَكَ الْجِدَّ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقٌ … ” فلا بأس.
ثم قال : ” وإنما يُستحبّ الجمع بينهما إذا كان منفردا أو إمامَ محصُورِين يرضَون بالتطويل، والله أعلم “.
فلاحِظْ أن مجموع هذين الدعاءين لا يستغرق أكثر من خمس دقائق، ومع ذلك يعدّه الإمام النووي من التطويل الذي يُشترط فيه رضا المأمومين وعدم المشقة عليهم.
فماذا يقول الإمام رحمه الله في هذه الاستعراضات التي تصل إلى نصف ساعة وأكثر، لا سيما إذا انضم إليها التغني والتطريب وهو مقام ضراعة وخضوع!!.
فلا غرو أن يقول الكمال ابن الهمام – رحمه الله :
لَا أَرَى تَحْرِيرَ النَّغَمِ فِي الدُّعَاءِ كَمَا يَفْعَلُهُ الْقُرَّاءُ فِي هَذَا الزَّمَانِ يَصْدُرُ مِمَّنْ فَهِمَ مَعْنَى الدُّعَاءِ وَالسُّؤَالِ.
وَمَا ذَلِكَ إلَّا نَوْعُ لَعِبٍ، فَإِنَّهُ لَوْ قُدِّرَ فِي الشَّاهِدِ سَائِلُ حَاجَةٍ مِنْ مَلِكٍ أَدَّى سُؤَالَهُ وَطَلَبَهُ إليه بتَحْرِيرَ النَّغَمِ فِيهِ مِنْ الرَّفْعِ وَالْخَفْضِ وَالتَّغْرِيبِ وَالرُّجُوع كَالتَّغَنِّي = نُسِبَ الْبَتَّةَ إلَى قَصْدِ السُّخْرِيَةِ وَاللَّعِبِ، إذْ مَقَامُ طَلَبِ الْحَاجَةِ التَّضَرُّعُ لَا التَّغَنِّي.
ومن ابتُلي بمثل هؤلاء يجوز له في بعض المذاهب الفقهية أن يُفارقَه، لا سيما مع المشقة، فيتركه ويسجد ويتم صلاته ويسلّم، ويدعه يغنّي كما يشاء.

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

امام نووی رحمہ اللہ نے ثابت كيا ہے کہ یہ سنت میں سے ہے کہ نمازی دعائے قنوت میں ان دعاؤں کا اہتمام کرے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں؛ ان منقول دعاؤں میں سے ایک معروف دعا: “اللھم اھدنی فیمن ھدیت…..” ہے۔
اگر کوئی شخص اس دعا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بایں الفاظ منقول دعا کے ذریعے اضافہ کرتا ہے:

“اللَّهُمَّ إنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنُؤْمِنُ بِك، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ ، اللَّهُمَّ إيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ ، وَإِلَيْك نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ وَنَخْشَى عَذَابَكَ إنَّ عَذَابَكَ الْجِدَّ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقٌ … “

تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں:
جب وہ نمازی تنہا ہو گا یا وہ ان محصور اور روک دیے جانے والے لوگوں کا امام ہو گا جو طوالت پر رضا مند ہوں تو اس وقت ان دونوں دعاؤں کو جمع کرنا مستحب ہو گا؛ واللہ اعلم….”
اس بات کا خیال رہے کہ ان دو دعاؤں کو اکٹھا(پڑھنے میں) پانچ منٹ سے زیادہ وقت صرف نہیں ہوتا، اس کے با وجود امام نووی نے اس کو اس طوالت میں شمار کیا ہے جس میں یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ مقتدی اس پر راضی بھی ہوں اور ان پر کسی قسم کی کوئی مشقت و کلفت بھی نا ہو۔ تو امام رحمہ اللہ تعالٰی ان لمبی لمبی دعاؤں و التجاوں کی بابت، جو آدھے گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ وقت سے تجاوز کر جاتی ہیں، خصوصاً جب ان میں ترنم اور سر کی بھی آمیزش ہو جائے، کیا کہتے؟! جب کہ یہ عاجزی و انکساری اور خضوع کا محل ہوتا ہے!
اس لیے کمال ابن الھمام رحمہ اللہ تعالٰی کا یہ کہنا کوئی تعجب خیز بات نہیں:
“میں دعا میں ایسے ترنم اور راگ پیدا کرنے کو، جیسے اس زمانے میں قرا حضرات کرتے ہیں، کسی ایسے شخص سے صادر ہوتے نہیں دیکھتا جو دعا اور التجا کے مفہوم سے آگاہ ہو…”
یہ کھیل اور تفریح کی ایک قسم کے سوا کچھ بھی نہیں؛ کیوں کہ اگر نگاہوں کے سامنے کچھ ایسا واقعہ ہو کہ بادشاہ سے اپنی حاجت کا سوال کرنے والا؛ اپنی حاجت اور طلب کو اس کے حضور ترنم اور راگ پیدا کرکے یوں پیش کرے کہ اس میں ایک گلوکار کی طرح آواز کو کبھی بلند، کبھی پست، کبھی اس میں انوکھا پن اور آواز کو دور لے جائے اور پھر اسے واپس لائے؛ تو ایسی صورت حال کو ہر حال میں ٹھٹھہ اور کھیل تماشا ہی قرار دیا جائے گا۔ جب حاجت طلب کرنے کا محل ہو گا تو عاجزی و انکساری کو لازم پکڑا جائے گا؛ نا کہ راگ و سر نکالنے کو۔۔۔۔۔!!!
جو شخص اس طرح کے معاملات میں مبتلا ہو جائے تو بعض فقہی مذاہب کے نزدیک، بالخصوص بہ وقت مشقت و کلفت، ایسے شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ اس سے علیحدگی اختیار کر لے؛ پھر اسے چھوڑ دے، سجدہ کرے، اپنی نماز مکمل کرے اور سلام پھیر دے اور اسے اس حالت میں چھوڑ دے کہ جیسے اس کا جی چاہے سر لگائے اور گنگائے۔۔۔۔۔۔۔!!

فضیلۃ الباحث مولوی محمد زین سرورحفظہ اللہ

’اللھم اھدنی فیمن ‘کی سند میں جو اختلاف واقع ہے وہ السنن الکبری للبیہقی میں دیکھئے۔
بعض روات اسے مطلق بیان کرتے ہیں بعض کہتے ہیں فجر کے قنوت کے لئے سکھایا بعض کہتے ہیں وتر کی نماز کے لئے سکھایا ،محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے میرے ابا سیدنا علی رضی اللہ عنہ اسے فجر کے قنوت میں پڑھتے تھے، بعض نے کہا کہ نبی علیہ السلام ان الفاظ کے ساتھ فجر اور رات کے قیام میں قنوت کرتے اور بعض نے اسے روایت ابن عباس بنایا اور الفاظ ہیں اللہ کے نبی نے ہمیں یہ الفاظ سکھائے اور اس کے ذریعے ہم فجر کے قنوت میں دعا مانگتے(وغیرہ)
امام ابن خزیمہ اس متعلق وارد اختلاف کا ذکر فرما کر شعبہ رحمہ اللہ کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں اور کہتے ہیں میں قنوت والی روایت کو ثابت نہیں سمجھتا۔ (اسکین ارسال کر دیتا ہوں)
امام احمد(لا يصح عن النبي صلي الله عليه وسلم في قنوت الوتر قبل أو بعد شيء﴿مسائل عبدالله﴾ وذکر الخلال عنہ “لیس یروی فیہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم شیء)امام ابن حبان (کا کلام انتہائی نفیس ہے ابن الملقن نے البدر المنیر میں ذکر کیا) ،ابن المنذر( دیکھئے الأوسط) رحمهم اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔

واستغربه الترمذي رحمه الله بقولہ وذکر الخلاف فی قنوت الوتر
(وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيِّ، وَاسْمُهُ رَبِيعَةُ بْنُ شَيْبَانَ، وَلَا نَعْرِفُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ، فَرَأَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ الْقُنُوتَ فِي الْوِتْرِ فِي السَّنَةِ كُلِّهَا، وَاخْتَارَ الْقُنُوتَ قَبْلَ الرُّكُوعِ، وَهُوَ : قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَإِسْحَاقُ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّهُ كَانَ لَا يَقْنُتُ إِلَّا فِي النِّصْفِ الْآخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَكَانَ يَقْنُتُ بَعْدَ الرُّكُوعِ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ.)
رواه أبو داود (1425)، والترمذي (464)، والنسائي (3/248)، وابن ماجه (1178)، وأحمد (1/199) (1718)، وزاد البيهقي (2/209) (3263): ((ولا يَعزُّ مَن عادَيْت)). قال الترمذيُّ: حسنٌ لا نعرفه إلَّا مِن هذا الوجه. وقال ابنُ عبد البرِّ في ((التمهيد)) (2/285): رُوي من طُرق ثابتة. وصحَّح إسنادَه النوويُّ في ((الخلاصة)) (1/455)، وقال ابن الملقِّن في ((خلاصة البدر المنير)) (1/128): إسنادُه على شرْط الصَّحيح، وقال ابنُ حجر في ((نتائج الأفكار)) (2/147): حسن صحيحٌ. وقال السَّخاويُّ في ((القول البديع)) (261): سندُه صحيحٌ أو حسن. وقال الشوكانيُّ في ((تحفة الذاكرين)) (215): أقلُّ أحواله إذا لم يكُن صحيحًا أن يكون حسنًا. وصحَّحه أحمد شاكر في تحقيق ((المحلى)) (4/147)، والألباني في ((صحيح سنن أبي داود)) (1425)، والوادعي في ((الصحيح المسند)) (319). قال الإمام أحمد كما في في ((التلخيص الحبير)) لابن حجر (2/18): (لا يصحُّ فيه عن النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم شيءٌ)، لكنه لَمَّا قِيل له: تختار من القنوت شيئًا، قال: ما جاء في الحديثِ، فلا بأسَ به. ((مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني)) (ص: 71). والحديث يؤيِّده فِعلُ السَّلف، كما قال ابن عبد البر: (لا يصحُّ عن النبيِّ عليه السلام في القنوت في الوترِ حديثٌ مسنَد، وأمَّا عن الصحابة فرُويَ ذلك عن جماعةٍ). ((الاستذكار)) (2/77).

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ