عشا کی نماز میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے بعد شیخ صلاح البُدَیر نے سورہ الرحمان کی تلاوت شروع کی۔ جب جب “فبأي آلاء ربکما تُکذبان” والی آیت گزرتی، پیچھے کی صف سے ایک بچے کی آواز بھی شیخ کی آواز میں شامل ہو جاتی۔ اگلی رکعت میں بچے نے نسبتاً بلند آواز سے تان ملانا شروع کی۔ تشہدِ اول میں بیٹھے تو بلند آواز کے ساتھ تشہد کی مکمل دعا پڑھ گیا، ایسے جیسے اپنے استاد کو سبق سنا رہا ہو۔ آخری دو رکعتوں میں جہاں قراءت سِرّی تھی، بچہ کُلّی وہابی بن گیا اور نہ صرف قیام میں جہری قراءت جاری رکھی؛ بلکہ رکوع، سجود، قومہ، جلسہ، تشہد ہر موقعے کی دعا جہراً پڑھتا گیا، تا آنکہ سلام پھیرا گیا۔
عموما ایسے حالات میں چہرہ پر خشونت طاری ہوا کرتی؛ دل میں کراہت کے جذبات امڈ آیا کرتے؛ اور دل ہی دل میں ایسے بچوں کے والدین اور تربیّت کُنندگان کو ان کی بے حسی پر سخت سست کہا کرتا۔ مگر حیرت کی بات تھی کہ اول تا آخر نماز کے سارے دورانیے میں ایک طمانیت بھری مسکراہٹ اس خیال سے ہونٹوں پر کھلی رہی کہ اس شبہات و شہوات بھرے دور میں بھی امت کی اگلی نسل الہی بارِ امانت اٹھانے کےلیے تیار ہو رہی ہے۔ گویا یہ ادراک کا ایک لمحہ تھا جس میں کُھلا کہ جسے آج تک تربیت کی کوتاہی سمجھتا تھا، فی الاصل یہی عین تربیت ہے۔
نماز سے فراغت کے بعد پراشتیاق نظروں سے فوری آواز کی سمت نظر کی۔ اٹھ کر گیا اور ملائیشیا کے بہار دین اور ان کے چار سالہ بیٹے محمد بایو سے ملا۔ والد کی اجازت سے محمد بایو کی تصویر لی اور پیار دیا۔ بہار دین انگلش اور اشارے کی ملی جلی زبان میں کہنے لگا کہ دعا کرنا اللہ بچے کو حافظِ قرآن بنا دے۔
سچ ہے کہ وہ بچے جن کی مساجد میں آمد کو آج ہم اپنی عبادات میں خلل گردانتے ہیں، کل یہی بچے ان مساجد کی آبادی کا سبب ہوں گے اور یہی محراب و منبر سبنھالیں گے۔ منقول