رحمت مآب ساعتوں کی آہٹیں پھر جذبات میں ایمان یافتہ کیف و سرور گھولنے لگی ہیں، وہی تقویٰ میں ملفوف شگفتہ احساسات کی چاپ پھر دلوں میں جاگزیں ہو چکی ہیں، جسم و جاں سے لے کر تخیّلات تک کو جِلا بخشنے والے لمحات ایک بار پھر ہماری زندگیوں پر سایہ فگن ہیں اور مجھے کہنے دیجیے! کہ زیست کے سب سے گراں قدر لیل و نہار ہمارے سارے کرب کو طرب میں بدلنے آ گئے ہیں۔وہی سعید افروز شب و روز کہ جن میں جنّت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے، وہی تقدیس میں گُندھی تابندہ سی صبحیں کہ جن میں ہر نیکی کا اجر 70 گُنا سے بھی زیادہ کر دیا جاتا ہے، وہی پُر نور شامیں کہ جن میں نشاط اور طمانیت کا عجیب سا احساس رگ و پَے میں سما جاتا ہے، وہی ماہِ مبیں کہ جس میں ہر نیکی کا مقصود فقط تقویٰ کا حصول ہوتا پے۔رمضان المبارک میں تمام جدوجہد کی حکمتیں یہ ہیں کہ اپنی خواہشات کی نفی کی جائے۔معاملات اور تعلقات میں بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کو مقدّم رکھا جائے۔مَیں عبادات کی نہیں بلکہ تعلقات کی بات کرنے چلا ہوں۔کتنے ہی مَحبّت سے لبریز رشتے ہم نے اپنی انا کی بھینٹ چڑھا دیے۔کتنے ہی محترم اور باوقار تعلقات کی دھجیاں ہم اُڑا چکے، اللہ کے نزدیک شرک کے بعد سب سے بُرا عمل، رشتوں کو توڑنا ہے۔آج نفرتیں سَر چڑھ کر بول رہی ہیں، عداوتوں نے اودھم اور طوفانِ بدتمیزی مچا رکھا ہے۔مَیں نے متقی اور پارسا لوگوں کو بھی اپنے دوست احباب کے متعلق ایسے عناد و بغض کو دل میں پال پوس کر رکھے دیکھا ہے کہ بہ ظاہر وہ کسی شخص سے بول چال بند کر کے تعلقات بھی منقطع نہیں کرتے، اس لیے کہ ایسا کرنا شریعت میں ممنوع ہے، مگر وہ اپنے دل میں انھی لوگوں کے متعلق اتنا نفاق رکھتے ہیں کہ اندر ہی اندر انھیں ٹھنڈے میٹھے انداز میں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، کیا یہ لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ اللہ ان کے اندر چُھپی اس منافقت سے بے خبر ہے؟ یہ انسانوں کو کیا ہو چکا کہ ہر سمت ہی انسانیت معدوم ہوتی جا رہی ہے۔یہ لوگ کس منحوس ڈگر پر چلے جا رہے ہیں؟ کہ مَحبّت آمیز نسبتیں بھی سسک رہی ہیں۔
لاریب زندگی تفکّرات کا مجموعہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آج رشتے، ناتے اور تعلقات ہر شخص کے لیے ایک وبال اور آزمایش بن چکے ہیں، انسان بے وفائی اور کج ادائی کی انتہا پر کھڑا ہے، یہاں جس شخص سے بھی دل سے مَحبّت کی جائے وہی دل کے عارضوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔آپ جس کو بھی بولنا سکھائیں وہی آپ کو گونگا سمجھنے لگتا ہے، آپ جس انسان کو بھی انگلی پکڑ کر چلنا سکھائیں وہی آپ کو لنگڑا کہنے میں تامّل نہیں کرتا، جس شخص پر بھی احسانات کی انتہا کر دی جائے، وہی احسانات کے عوض ایسے گھاؤ دے جاتا ہے کہ مرتے وقت تک انسان ان زخموں کو بھول ہی نہیں پاتا۔مَیں نے رشتوں ناتوں اور جذبات و احساسات میں ایسا تضاد بھی پلتے دیکھا ہے کہ آپ جس شخص کی طویل زندگی کی دعائیں مانگتے ہیں وہی آپ کے مرنے کی بد دعائیں کرنے لگتا ہے۔تند و تلخ موسموں کے تھپیڑے سہ کر عُمر کے آخری حصّے میں، آلام پر مشتمل ایسے سوالات کا ہجوم بھی اسی شخص کا منہ چِڑانے لگ جاتا ہے کہ جس کا کوئی جواب وہ دے ہی نہیں پاتا، فاخرہ بتول کے اشعار ہیں۔
چپ چاپ تَکے جاتے ہو خاموش سوالو!
اِس سوچ کے دریا سے ذرا مجھ کو نکالو!
بجنے نہ لگے دل کا یہ کشکول اچانک
یادوں کے چمکتے ہوئے سِکّے نہ اچھالو!
زندگی میں متعدد بار ایسے بھی ہوتا کہ ذہنی انتشار اور خلفشار میں الجھا انسان کسی سنسان جگہ پر دیر تک کھڑا سوچتا رہتا ہے، اس کا دل گھر جانے کو کرتا ہے نہ دوست احباب کی محافل میں، امیر قزلباش کا یہ شعر بھی تو ایسی ہی بے بسی کی منظر کشی ہے :-
تم راہ میں چپ چاپ کھڑے ہو تو گئے ہو
کس کس کو بتاؤ گے کہ گھر کیوں نہیں جاتے؟
چہار اطراف احسان فراموش لوگوں کے جمگھٹے کے باوجود یاد رکھیں کہ یہ ایسا مہینہ جو بہ طورِ خاص نیکیاں کمانے کا ہے، جو گناہوں سے معافی مانگنے کا ماہِ مبارک ہے، جو منافقت، منافرت اور مناقشت دلوں سے ختم کر کے لوگوں کو معاف کرنے کا ماہِ سعید ہے۔سُنیں اور وسعتِ قلبی کے ساتھ دھیان سے سُنیں کہ آپ نے اپنے پیاروں کی ہر طرح کی کج ادائی کے باوجود بہ ہر طور انھیں معاف کرنا ہے، یہی ماہِ صیام کا تقاضا ہے اور یہی اس مہینے کی خصوصیت، صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2555 ہے۔
” کوئی گناہ ایسا نہیں کہ اس کا کرنے والا دنیا میں ہی اس کا زیادہ سزا وار ہو اور آخرت میں بھی یہ سزا اسے ملے، سوائے ظلم اور رشتہ توڑنے کے “
سو آپ جہاں پر بھی، جس منصب پر بھی موجود ہیں، اپنے کردار و عمل پر غور ضرور کریں۔اگر کوئی بے مروّت آپ کی طرف لوٹ آنے کا متمنی ہو تو دل کا دروازہ اس کے لیے ہمیشہ کُھلا رکھیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اِکل کُھرا شخص لوٹ آنے کے تمام امکانات معدوم کر چکا ہو اور آپ کو اپنے دروازوں کی ہر صدا کیف بھوپالی کے اس شعر کی مانند شریر ہَوا کے جھونکوں کا شاخسانہ ہی محسوس ہوتی ہو۔
کون آئے گا یہاں، کوئی نہ آیا ہوگا
میرا دروازہ ہَواؤں نے ہلایا ہوگا
اگر ایسا ہی ہے تو پھر آپ وہ عظیم قربانی ضرور دیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے حد محبوب ہے، پھر آپ خود اُس شخص کی طرف قدم بڑھا دیجیے، شاید وہ آپ ہی کا منتظر ہو، آخر ہم کب تک نفرتوں کا بوجھ دل میں اٹھائے پھرتے رہیں گے، اس ماہِ صیام سے حقیقی طور پر مستفید اور مستفیض ہونے کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے دلوں سے ہمہ قسم کا عناد و بغض اور کینہ کپٹ نکال باہر کریں۔بشیر بدر نے بہت عمدہ شعر کہا تھا:-
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں
آج انساں کو مَحبّت کی ضرورت ہے بہت