سوال (863)

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ : كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ يُصَلِّيْ فِيْ رَمَضَانَ عِشْرِيْنَ رَكَعَةً وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ.[رواه عبد بن حميد]

یہ روایت سندا کیا حیثیت رکھتی ہے ؟

جواب

ليست صحيحة الرواة التي وردت في عدد التراويح عشرين ركعة.
(1) : أنَّ النبيَّ ﷺ كان يصلِّي في رمضانَ عشرينَ ركعةً سوى الوترِ ويوترُ بثلاثٍ
[الزيلعي، نصب الراية (٢/١٥٣) • معلول بأبي شيبة إبراهيم بن عثمان • أخرجه ابن أبي شيبة (٧٧٧٤)، والطبراني ((المعجم الأوسط)) (٧٩٨)، والبيهقي (٤٧٩٩) مختصراً باختلاف يسير]
(2) : كانَ أُبِيُّ بنُ كَعْبٍ رَضِيَ اللهُ عنهُ يُصلِّي في رمضانَ بالمدينةِ عشرينَ ركعةً، ويُوتِرُ بثلاثٍ.
[شعيب الأرنؤوط، تخريج شرح السنة (٤/١٢٠) • إسناده مرسل قوي]
(3) : كان عبدُ اللهِ بنُ مسعودٍ رضيَ اللهُ عنهُ يصلِّي بِنا في شهرِ رمضانَ فينصرفُ وعليهِ ليلٌ. قال الأعمشُ: كان يصلِّي عشرينَ ركعةً، ويوترُ بثلاثٍ.
[الألباني، صلاة التراويح (٨١) • منقطع]

یہ روایت مجروح ہے علماء کرام نے سخت جرح کی ہے۔
اس روایت کے متعلق علماء احناف کا فیصلہ :
معروف حنفی محدّث علّامہ زیلعی نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ میں لکھتے ہیں : ” یہ روایت امام ابو بکر ابن ابی شیبہ کے دادا ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے معلول (علّت والی) ہے کیونکہ اس کے ضعیف ہونے پر تمام محدّثینِ کرام کا اتفاق ہے اور ابن عدی نے الکامل میں اسے لیّن (کمزور) قرار دیا ہے، پھر یہ روایت اُس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں رمضان و غیر رمضان کسی وقت نبی ﷺ کے گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھنے کا ذکر آیا ہے اور انھوں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن رحمہٗ اللہ کے طریق سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث

” مَاکَانَ یَزِیْدُ فِيْرَمَضَانَ وَلَا فِيْ غَیْرِہٖ عَلَیٰ اِحْدَیٰ عَشَرَۃَ رَکعة”

بھی نقل کی ہے جو ہم ” مسنون عدد ِ تراویح ” کے تعیّن کیلئے پہلی حدیث کے طور پر ذکر کر آئے ہیں ۔
[نصب الرایہ وتحفۃ الاحوذی ۳؍ ۵۲۹]
ایسے ہی ایک دوسرے حنفی عالِم مولانا شوق نیموی اپنی کتاب آثار السنن کے حاشیہ پر لکھتے ہیں کہ ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان ضعیف ہے ۔ امام بیہقی نے اس روایت کو وارد کر کے آخر میں لکھا ہے کہ ؛ ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان العبسی الکوفی اسمیں منفرد ہے اور وہ ضعیف ہے ۔

فضیلۃ الباحث عبدالسلام جمالی حفظہ اللہ