سوال (2447)

ایک شخص نے اپنے بھائی کا دو دن کا بیٹا لے کے کر پالا تھا، اب وہ شخص خود سعودی عرب میں ہے اور بیوی بچوں کو ساتھ لے کر جانا چاہ رہا ہے تو اس کا کہنا یہ ہے کہ میں جب تک اس بچے کو ا اپنا بیٹا ظاہر نہیں کروں گا، اس وقت تک میں اس کو باہر لے کر نہیں جا سکتا ہوں، کیونکہ باقی جو اس کی بیوی ہے یا باقی ایک دو بچے ہیں، وہ باہر ہی ہیں تو اب یہ اس کو چھوڑ بھی نہیں سکتا ہے، کیونکہ پالا ہی انہوں نے ہے اور اس کو لے کر بھی جانا چاہتا ہے تو اس کا کہنا یہ ہے کہ ولدیت جب تک میں اپنی نہ لکھو نہیں لے کر جا سکتا ہوں، تو کیا صرف اس مقصد کے لیے کہ میں اس کو باہر لے کر چلا جاؤں، ولدیت میں اپنی لکھوا سکتا ہوں اور اگر نہیں لکھوا سکتا تو اس کا کوئی حل اگر کسی کے پاس ہے تو وہ ضرور بتائیے گا۔

جواب

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

“اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ”
[الاحزاب: 5]

«ان کو ان کے آباء کی نسبت سے ہی پکارا جائے»
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْفِرَى أَنْ يَدَّعِيَ الرَّجُلُ إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ. [صحيح البخارى:3509]

’سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ انسان اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی کو اپنا باپ خیال کرے‘۔
ایک اور روایت میں ہے:

مَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ .[صحيح البخارى:4326]

’جو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرے، تو اس پر جنت حرام ہے‘۔
ایک اور حدیث میں اس عمل کو ’کفر‘ اور ایسا کرنے والے کو ’جہنمی‘ قرار دیا گیا ہے۔ [صحیح البخاری:3317]
شرعی فیصلہ درج بالا دلائل کی رو سے یہ ہے کہ ان کو ان کے آباء کی نسبت سے ہی پکارا جائے، باقی قانونی طور پر ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں پیش کیا گیا ہے، میری رائے یہ ہے کہ قانونی طور پہ اس کی اجازت دینی چاہیے، قدم قدم پہ پریشانی ہوتی ہے ، ہماری طرف اس کا کوئی حل پیش نہیں کیا جاتا ہے، یعنی قانونی طور پہ اس بچے کی نسبت اس کی طرف ہونی چاہیے، بھلے اس کو اضطرار ہی کہا جائے، باقی اس کے پاس ایک تحریر ضرور ہونی چاہیے کہ یہ بچہ اس نے پالا ہے، اس کا حقیقی بچہ نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

قرآن مجید میں بڑی صراحت کے ساتھ یہ بات بیان کی گئی ہے کہ “ادعوھم لآبائھم” کہ ان کے انکے باپوں کے نام سے پکارو. [الاحزاب] تو کسی بھی بچے کی ولدیت میں والد کے علاوہ کسی اور کا نام لکھوانا جائز نہیں ہے ، البتہ وہ بطور سرپرست جس کو انگلش میں گارڈین کہا جاتا ہے، اپنا نام وہ لکھوا سکتے ہیں باہر لے جانے کے لیے جو اس کام کے ایکسپرٹ ہیں ، ان سے رابطہ کریں اور بطور سرپرست لے جائیں ۔
ماہرین کوئی راستہ یا حل جانتے ہوں گے ان شاءاللہ
ہم نے تو شرعی حکم بیان کرنا ہوتا ہے۔
شیخ کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے گزارش کروں گا کہ اکثر جگہ پہ سرکاری فارم یا اس طرح کے کچھ اداروں کے فارم پر کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ والد / سرپرست لکھا ہوتا ہے۔
جہاں تو ایسی صورت موجود ہو تو بطور سرپرست ہی نام لکھنا چاہیے اور جہاں ایسی صورت نہ بن سکتی ہو تو پھر اضطرار کا فتوی صرف اسی حد تلک دیا جا سکتا ہے، جس سے غیر باغ ولا عاد والی کیفیت بھی نہ پیدا ہو، کیونکہ بہت سے اور بھی معاملات ہیں، جن میں حقیقی اور لے پالک میں فرق کرنا ضروری ہے۔

فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ