نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو

تاریک تخیّلات میں بھٹکتے لوگوں کو آزادی کی تفسیر اور ذہنی گراوٹ میں غلطاں لوگوں کو آزادی کی تعبیر سمجھ میں آنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔کتنے ہی مصلحت کیش ایسے ہیں کہ جو اغیار کے حضور نیازکیش بن جاتے ہیں۔آزادی تو فکرونظر، قول و عمل اور کرداروگفتار کو اوجِ کمال پر لے جاتی ہے۔” بنیا جس کا یار، اُس کو دشمن کیا درکار “ کے برعکس یہاں معاملہ ہی بالکل الٹ ہے۔یہاں دوستی اور یاری کے تمام پیمانے بھارت کے ساتھ منسلک کر کے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا رہا ہے کہ کسی طرح بھارت کے دل میں گنجایش پیدا کی جائے۔75 سال بیت چلے، تیل اور تیل کی دھار کی طرح ہم ہندو مکّار کے مکروہ کردار کو خوب اچھی طرح دیکھ چکے، ہم اس کی منحوس سرکار کو بھی بہت اچھی طرح ملاحظہ کر چکے۔سب کچھ جان بوجھ کر بھی یہاں کیسی کیسی بے تکی، بے محل اور بھدّی صدائیں اٹھیں۔یہ لوگ کبھی امن کی آشا کے لیے زمزمہ سنج ہوئے تو کبھی بھارت کو موسٹ فیورٹ مُلک قرار دینے کی ” حکمتِ عملی “ تیار کرنے کے لیے اِن ” حکما “ نے نسخہ جات تیار کیے، یہ لوگ بھارتی ہندو کی بنجر زمین پر فصلِ لالہ و گُل اگانے کے لیے خون پسینہ ایک کرتے رہے مگر بھارت کے ہر وزیرِ اعظم کے دل میں عناد و فساد کی کانٹوں بھری جھاڑیاں ہی اگتی چلی گئیں۔ہم دو لخت کر دیے گئے مگر یہ لوگ تعلقات میں تمازت پیدا کرنے کے لیے ہی پاپڑ بیلتے رہے، ہم پر جنگیں مسلّط کی گئیں مگر یہ لوگ ارادے کے پکّے ٹھہرے سو یہ آنکھیں بند کر کے اور عقل و شعور کے کواڑ پر قفل جَڑ کر بھارتی مَحبّت میں فریفتگی ہی کا اظہار کرتے رہے، بھارت نے کتنی ہی بار ہماری سرحدوں پر آگ اور بارود برسائی مگر یہ ٹھہرے مستقل مزاج، اسی لیے یہ لوگ جُوئے شِیر نکالتے نکالتے اور کوہ کنی کرتے کرتے آج تک نہیں تھکے۔

یہ بھی ہُوا کہ بھارت کے منہ سے اُڑتے متعفّن جھاگ کے چھینٹے فضاؤں کو آلودہ کرتے رہے، وہ ہمارے خلاف ہرزہ سرائی کا سلسلہ مختلف وقفوں سے جاری رکھتے ہیں، بھارتی میڈیا ایڑیاں اٹھا اٹھا کر اور بھارتی حکومت سانسیں پُھلا پُھلا کر پاکستان کے خلاف مہیب اور منفی پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے اور ہم بار بار مذاکرات کا وہی بوسیدہ اور گِھسا پِٹا راگ الاپ کر سماعتوں کو آزار میں مبتلا کرنے سے کبھی باز نہیں آئے۔کیا آپ فراموش کر چکے اُن زخموں کو جو بھارت ہمارے تن من پر لگا چکا ہے؟ وہ کتنی ہی بار ہماری سرحدوں پر بارود برسا کر ہمارا خون بہا چکا، اُس کے ڈرون طیارے ہماری سرحدوں کے اندر تک گُھس کر جاسوسی کر چکے ہیں۔اگرچہ بھارت نے آج تک مذاکرات کو چھان بُورے جتنی بھی اَہمّیت نہیں دی مگر ہم مذاکرات سے ہٹ کر کسی اور پہلو پر سوچنے کے لیے آمادہ ہی نہیں۔بھارتی میڈیا کسی ایک موقعے کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے نہیں چُوکنے دیتا۔اُس کے اینکرز کو فقط یہی کام ہے کہ وہ کیمرے کے سامنے بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زہر اُگلتے رہیں۔

آپ بھارت کی فلم انڈسٹری کو دیکھ لیں، وہ ہمارے محبوب و مرغوب اداروں پر دشنام طرازی کرنے کے لیے فلمیں بنانے پر منظّم طریقے سے کام کر رہی ہے، وہ پاک فوج کے خلاف فلمیں بنا چکی، اُس نے ہماری خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے خلاف فلمیں تیار کیں۔فینٹم نامی فلم میں اُس نے پاکستان کے خلاف خوب ہرزہ سرائی کی، یعنی بھارت کا کوئی بڑا ادارہ ایسا نہیں، جو پاکستان کے خلاف اپنی توانائیاں نہ کھپا رہا ہو، ایسے گھمبیر حالات میں مذاکرات کی بات انتہائی پھسپھسی اور بوسیدہ ہی تو ہُوا کرتی ہے۔

پاکستان کے خلاف گَرد اور دُھول اُڑانا بھارت کی فطرت ہے، ہمیں دباؤ میں رکھنے کے لیے وہ ہر طرح کی اوچھی اور گھٹیا حرکات کرتا ہے۔کتنی ہی بار یہ پُھلجھڑی چھوڑی جا چکی کہ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنایا جائے گا۔مذاکرات اگر واقعی مذاکرات ہوں تو ” نتیجہ خیز “ کی دُم لگانے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔مذاکرات تو ہوتے ہی نتیجہ خیز ہیں اور اگر یہ نتیجہ خیز نہ ہوں تو یہ ایک سراب، فریب اور منافقانہ ڈھونگ ہی تو ہوتا ہے، یقیناً اسی مذاکرات کے نام پر بھارت نے ہمیں دجل میں مبتلا کر کے کشمیر پر قبضہ جما رکھا ہے۔پہلے مذاکرات ہوتے تھے پھر اس کی جگہ ” نتیجہ خیز “ مذاکرات نے لے لی مگر حقیقت میں بھارت کے دل میں کَپٹ ہے سو وہ کبھی دل سے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر آمادہ نہیں ہو گا، بھارت اگر مذاکرات کی میز رسماً سجاتا بھی ہے تو کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے اور اسے طول دینے لیے یہ سارا سوانگ رچاتا ہے۔

آزادی دشمن کے آگے بچھ جانے کا نام نہیں ہوتی، آزادی مکّار دشمن کے ساتھ مذاکرات کے پاپڑ بیلنے سے بھی عبارت نہیں، دشمن سے سیکڑوں زخم لگوا کر اُسی کی طرف دیوانہ وار لپکنے کا نام کبھی آزادی نہیں ہُوا کرتا، آزادی تو اللہ کی طرف سے ایک تحفہ ہوتی ہے، ایک ایسی نعمتِ غیر مترقبہ کہ جو دو قومی نظریے کو پروان چڑھانے اور اسلام کی اشاعت کی راہیں ہموار کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے، جو انا، خودی اور خود داری کے احساسات سے دلوں کو لاد دیتی ہے، سو آزادی کی قدر کریں اور اِسے بھارتی مَحبّت کے لیے کبھی بے توقیر نہ ہونے دیں۔

75 ویں یومِ آزادی پر آج ہم انتہائی حساس اور کٹھن حالات میں مبتلا ہیں، کُو بہ کُو نفرتیں، عداوتیں اور کدورتیں سَر تان کر کھڑی ہیں، سیاسی زعما ہوں یا عوام الناس، ایک دوسرے کو منافق، غدار، چور، ڈاکو اور لٹیرے سے کم کوئی نام دینے کو تیار نہیں، دلوں میں موجود کد ہر حد سے گزر چکی، سارا مُلک اِس وقت سیاسی شدت پسندی کے نرغے میں ہے۔اپنی جماعت کے علاوہ سب مُلک دشمن، غدار اور ڈاکو دِکھائی دینے لگے ہیں، پاک فوج جیسا مضبوط، مربوط، منظّم اور محب وطن ادارہ دنیا کے کسی اور مُلک کے پاس نہیں مگر محض اقتدار کی حرص میں اس پر بھی طعن و تشنیع کی جا رہی ہے۔کلیجا پھٹ سا جاتا جب شہدا کے خون کی تضحیک کی جاتی ہے۔خدارا! اقتدار کی ہوس کی بجائے پاکستان سے مَحبّت کرو، دلوں میں عناد و فساد کی بجائے عزت اور احترام کے جذبات پیدا کریں، اس لیے کہ ہم سب نے باہم مل کر یہ چمن نکھارنا ہے۔جعفر ملیح آبادی کا شعر ہے۔

دلوں میں حبّ وطن ہے اگر، تو ایک رہو

نکھارنا یہ چمن ہے اگر، تو ایک رہو