بن بلائے دعوت میں شرکت کرنے کی عادت
احادیث کی روشنی میں

کچھ منتظمین جلسہ نے شکایت کی ہے کہ ہر خطیب کے ساتھ ڈرائیور سمیت دو چار ایکسٹرا لوگ بھی آجاتے ہیں اور وہ بھی علماء کی خاص مجلس اور کھانے میں بڑے دھڑلے کے ساتھ شریک ہوجاتے ہیں۔ جس سے انتظامیہ کے لیے کئی دفعہ مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔
اس کا ایک حل تو یہ کہ احباب جماعت پیشہ ور واعظوں سے تبلیغ کروانا ہی چھوڑ دیں اور متقی پرہیز گار علماء کو بلائیں اگر نیت صالح اور خالص تبلیغ کی ہو تو، ان پیشہ ور خطیبوں کی TCاور ناز برداریاں اٹھانے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔
اور دوسرا سب لوگوں کو بن بلائے دعوتوں میں گھسنے کی غیر اخلاقی اور غیر سنجیدہ و غیر متین عادت کی برائی سے آگاہ کیا جائے اور ایک مقرر اس موضوع پر گفتگو ضرور کرے۔
اب آئیے اس موضوع کی طرف
بلائے دعوت میں شرکت کرنے والے کے بارے حدیث مبارک میں ہے:

“عن عبد الله بن عمر: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم : “من دعي فلم يجب فقد عصى الله ورسوله، ومن دخل على غير دعوة ‌دخل ‌سارقا وخرج مغيرا”

ترجمہ: عبداﷲبن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے فرمایا: جس کو دعوت دی گئی اور اس نے قبول نہ کی اس نے اﷲ و رسول ﷺ کی نافرمانی کی اور جو بغیر بلائے گیا وہ چور ہو کر گھسا اورلٹیرا بن کر نکلا۔ (سنن أبي داود،باب ماجاء فی اجابۃ الدعوۃ،ج5،ص569،دارالرسالۃ العالمیہ)
صاحب خانہ کو بن بلائے دعوت میں آنے والے کو روکنے اور اجازت دینے کا اختیار ہے۔

اس بارے میں حدیث:

“عن ‌أبي مسعود الأنصاري قال: «كان من الأنصار رجل ‌يقال ‌له ‌أبو ‌شعيب، وكان له غلام لحام، فقال: اصنع لي طعاما أدعو رسول الله صلى الله عليه وسلم خامس خمسة فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم خامس خمسة فتبعهم رجل، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إنك دعوتنا خامس خمسة، وهذا رجل قد تبعنا، فإن شئت أذنت له، وإن شئت تركته. قال: بل أذنت له.”

ترجمہ: حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی، کہ ایک انصاری جن کی کنیت ابوشعیب تھی، انہوں نے اپنے کھانا پکانے والے غلام سے کہا، کہ اتنا کھانا پکاؤ جو پانچ شخصوں کے لیے کفایت کرے،میں نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کی مع چار اصحاب کے دعوت کروں گا۔ تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ چار اصحاب کو بلایا،تو(ان کے ہاں دعوت کو جاتے ہوئے ) ایک شخص حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ ہولیے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے فرمایا: ابوشعیب ہمارے ساتھ یہ شخص چلا آیا، اگر تم چاہو اسے اجازت دو اور چاہو تو نہ اجازت دو، انہوں نے عرض کی، میں نے ان کو اجازت دی۔ (صحیح بخاری،باب الرجل يتكلف الطعام لإخوانه،ج7،ص78،مطبعة الكبرى،مصر)
اس حدیث مبارک کی شرح میں امام ابو زكريا محي الدين يحيى بن شرف النووی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: ”

ففيه أن المدعو إذا تبعه رجل بغير استدعاء ينبغى له أن لايأذن له وينهاه وإذا بلغ باب دار ‌صاحب ‌الطعام أعلمه به ليأذن له أو يمنعه وأن ‌صاحب ‌الطعام ‌يستحب له أن يأذن له إن لم يترتب على حضوره مفسدة بأن يؤذي الحاضرين أو يشيع عنهم ما يكرهونه أو يكون جلوسه معهم مزريا بهم لشهرته بالفسق ونحو ذلك فإن خيف من حضوره شيء من هذا لم يأذن له وينبغي أن يتلطف في رده ولو أعطاه شيئا من الطعام إن كان يليق به ليكون ردا جميلا كان حسنا”

ترجمہ: اس حدیث میں یہ ہے کہ دعوت میں بلائے گئے شخص کے ساتھ جب کوئی دوسرا شخص بھی آجائے ،تو دعوت میں بلائے گئے فرد کے لئے مناسب یہ ہے کہ اسے اجازت نہ دے اور اسے منع کردے اور جب دعوت کرنے والے کے دروازے پر پہنچے تو صاحب خانہ کو اس کے بارے میں بتادے تاکہ وہ اجازت دینا چاہے تو اجازت دےد ے یامنع کرنا چاہے، تو منع کردے،اور اس صورت میں صاحب خانہ کا اسے اجازت دے دینا مستحب ہے جبکہ اس شخص کے اس دعوت میں شریک ہونے سے حاضرین کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی مثلاً یہ شخص حاضرین کو تکلیف دے گا یا حاضرین کی وہ بات عام کرے گا جسے یہ ناپسند جانتے ہوں یا اس شخص کے فسق کےساتھ شہرت یا اس طرح کی کسی دوسری خرابی کی وجہ سے ،اس کا حاضرین کے پاس بیٹھنا حاضرین کو عیب زدہ کرتا ہو،البتہ اگر اس کے شریک ہونے میں مذکورہ باتوں میں کسی بات کا خوف ہو تو اس اچانک آنے والے کو اجازت نہ دے اور اسے دعوت میں شرکت کرنے سے روکنے میں نرمی سے کام لے اور اگر کھانے میں،اس شخص کے لائق کوئی چیز دے کر واپس کرتا ہے تاکہ اسے اچھے طریقے سے واپس کیا جائے ،تویہ اچھا عمل ہے۔

(شرح النووي على مسلم،ج13،ص208، دار إحياء التراث العربي،بيروت)
یونہی علامہ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں ارشاد فرماتے ہیں:

“وفيه أنه ينبغي لمن استؤذن في مثل ذلك أن يأذن للطارئ كما فعل أبو شعيب وذلك من مكارم الأخلاق”

ترجمہ:اس حدیث مبارک میں یہ ہے کہ اس طرح جب کسی سے اجازت طلب کی جائے تو اچانک آنے والے کو اجازت دے دی جائے جیساکہ ابو شعیب رضی اللہ عنہ نے کیا اور ایسا کرنا اچھے اخلاق میں سے ہے۔(فتح الباري لابن حجر،ج9،ص561،دارالمعرفہ ،بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ

حافظ درانی