سوال
محترم ومکرم جناب صدر کبار علماء اہل حدیث افتاء کمیٹی، و دیگر مفتیان کرام، السلام علیکم ورحمة الله وبركاته،
شہرکراچی کے مرکزی بازار بولٹن مارکیٹ میں ایک جگہ پرمسجدبنائی گئی ہے، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ قبرستان تھا ،لیکن عین مسجد کی جگہ پر قبروں کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ البتہ اسی جگہ مسجد کے دائیں بلکہ صف کے ایک کنارے کے آگےاورمسجد کے بائیں مزار نما قبریں تاحال موجود ہیں، جو کہ مسجد کے ہال سے علیحدہ ہیں۔ کچھ مارکیٹ کے لوگوں میں سے بعض اس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں جبکہ بعض دیگر اس مسجد کے قبروں کے پاس ہونے کی وجہ سے نماز پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے۔ برائے کرم کتاب وسنت اور تعاملِ سلفِ صالح کی روشنی میں ہماری درست رہنمائی فرمائیں۔ وفقکم اللہ وبارک فیکم۔
سائل: محمد عمران، محمد زبیر، اور دیگر رفقا، بولٹن مارکیٹ کراچی 03009258167
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
صورت مسؤلہ میں اگر قبریں نیست ونابود ہو چکی ہیں ان کا کوئی نام و نشان باقی نہیں ہے اور اس جگہ پر مسجد تعمیر ہو چکی ہے تو اس میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔ امامِ نووی وغیرہ اہلِ علم نے یہ صراحت کی ہے کہ اگر قبروں والی جگہ پر میت کے آثار و باقیات سب کچھ ختم ہوچکاہو، تو ایسی زمین کو دیگر امور کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، الا یہ کہ کسی نے زمین خاص کر صرف قبرستان کے لیے ہی وقف کی ہو، تو پھر جائز نہیں۔ (المجموع شرح المهذب:5/303، الإنصاف 2/387)
اسی طرح دائیں یا بائیں موجودہ قبروں اور مسجد کے درمیان رکاوٹ موجود ہے،تو بھی ایسی مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے۔
ہاں ایسی قبریں اگر موجود ہوں کہ جن کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ ہو تو ایسی جگہ پر نماز پڑھنا جائز نہیں۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ