چھوٹے بچے کی شرم گاہ کو ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ بالخصوص خواتین کو بچے کی صفائی کرتے وقت یا دھوتے وقت ہاتھ لگانا پڑتا ہے تو کیا اس سے ان کا وضو برقرار رہتا ہے یا ٹوٹ جاتا ہے؟ اس حوالے سے علماء کی دو آراء میں سے راجح یہی ہے کہ چھوٹے بچے کی شرم گاہ کو ہاتھ لگنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، یعنی اگر کسی کا وضو ہو اور اس دوران بچے کی صفائی وغیرہ کرنی پڑ جائے جس سے اس کی شرم گاہ کو ہاتھ لگ جاتا ہے تو اس سے وضو پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ وضو برقرار اور صحیح رہتا ہے ۔
تفصیل یوں ہے کہ بچے کی شرم گاہ کا حکم بڑے لوگوں والا نہیں ہوتا، مثلا جیسے باستثنائے زوجین کسی بڑے کی شرم گاہ کو دیکھنا یا چھونا حرام ہے، جبکہ چھوٹے بچے کی شرم گاہ کو دیکھنا حرام نہیں ہوتا اسے بوقتِ ضرورت دیکھ بھی سکتے ہیں یا صفائی کے لیے چھو سکتے ہیں۔
جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

عورة الصغير لا حكم لها ، ولذلك يجوز مسها

”چھوٹے بچے کی شرم گاہ کا کوئی حکم نہیں ہوتا اس لیے اسے چھونا جائز ہے۔“ (1)
علامہ مرداوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

لا يحرم النظر إلى عورة الطفل والطفلة قبل السبع , ولا لمسها، نص عليه الإمام أحمد

”سات سال سے چھوٹے بچے یا بچی کی شرم گاہ کو دیکھنا یا چھونا حرام نہیں ہے، یہ مسئلہ امام احمد رحمہ اللہ سے نصا ثابت ہے۔“ (2)
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے امام زہری اور اوزاعی رحمہما اللہ کے حوالے سے بیان کیا ہے:

لا وضوء على من مس ذكر الصغير لأنه يجوز مسه والنظر إليه

”چھوٹے بچے کی شرم گاہ کو چھونے پر وضو نہیں ہے کیونکہ اسے چھونا یا دیکھنا جائز ہے۔“ (3)
شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ما دون سبع سنين عند الفقهاء ليس لعورته حكم ، بل عورته مثل يده ، ولهذا يجوز النظر إليها ، ولا يحرم مسها

”فقہاء کے ہاں سات سال سے چھوٹے بچے کی شرم گاہ کا کوئی حکم نہیں ہوتا، بلکہ وہ اس کے ہاتھ کی طرح ہوتی ہے، اس لیے اسے دیکھنا جائز ہے اور اسے چھونا بھی حرام نہیں۔“ (4)
علامہ کاسانی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

حُكْمَ الْعَوْرَةِ غَيْرُ ثَابِتٍ فِي حَقِّ الصَّغِيرِ وَالصَّغِيرَةِ

”چھوٹے بچے اور بچی پر شرم گاہ کا حکم لاگو نہیں ہے۔“ (5)
وضاحت : جس حدیث میں ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلْيَتَوَضَّأْ

”جس نے اپنی شرم گاہ کو چھویا وہ وضو کرے۔“ (6)
اس کا تعلق چھوٹے بچے کے ساتھ نہیں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا کہ وہ بڑوں کے حکم میں نہیں ہے نیز اس حدیث سے مراد بھی یہ ہے کہ شرم گاہ کو چھونے سے وضو تب ٹوٹتا ہے جب بلا واسطہ (ڈائریکٹ) بغیر کسی حائل کے اور شہوت کے ساتھ ہاتھ لگے۔
جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إذا أفْضى أحَدُكُمْ بِيَدِهِ إلى فَرْجِهِ، ولَيْسَ بَيْنَهُما سِتْرٌ ولا حِجابٌ، فَلْيَتَوَضَّأْ

”جب تم میں سے کوئی اپنا ہاتھ اس حالت میں شرم گاہ کی طرف بڑھائے کہ ہاتھ اور شرم گاہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ ہو تو وہ وضو کرے۔“(7)
اور سیدنا طلق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے شرم گاہ کو چھونے پر وضو کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

إِنَّمَا هُوَ بَضْعَةٌ مِنْكَ، أَوْ جَسَدِكَ

”وہ آپ کے جسم کا ہی تو ایک ٹکڑا ہے۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر جسم کے دوسرے اعضاء ہاتھ، ناک، کان، چہرے وغیرہ کی طرح ہی شرمگاہ کو بلا شہوت ہاتھ لگ جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔
اور بچہ کی شرم گاہ میں تو قطعی طور پر پر ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی لہذا شرم گاہ کو چھونے پر وضو کرنے والی حدیث سے یہاں استدلال نہیں کیا جاسکتا ۔ و اللہ اعلم۔
شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ اگر عورت بچے کی شرم گاہ کو ہاتھ لگائے تو کیا اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
تو انہوں نے فرمایا:

لا ينتقض وضوء المرأة إذا هي غسلت ولدها ومست ذكره أو فرجه

”جب عورت اپنے بچے کو دھوتی ہے اور اس دوران اس کی شرم گاہ کو ہاتھ لگا لیتی ہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔“ (9)
نوٹ :
اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے مروی روایت کہ

إنَّ حُرْمَةَ عَوْرَةِ الصَّغِيرِ كَحُرْمَةِ عَوْرَةِ الكَبِيرِ

غیر ثابت وسخت منکر ہے ۔ (10)

خلاصہء کلام:
حاصلِ بحث یہ ہے کہ چھوٹے بچے کی شرم گاہ کو ہاتھ لگنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس لیے بچوں کی صفائی وغیرہ کرتے وقت ہاتھ لگ جائے تو ان کا پہلے سے کیا ہوا وضو برقرار رہے گا اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، صرف اپنے ہاتھ دھو کر نماز وغیرہ ادا کی جا سکتی ہے ۔
وما توفیقی إلا باللہ ۔
حوالہ جات:
(1) شرح العمدة : 1/ 245
(2) الإنصاف : 8/ 23
(3) المغنی : 1/ 133
(4) الشرح الممتع : 5/ 275
(5) بدائع الصنائع : 1/ 305
(6) سنن ابی داود : 181، سنن الترمذی : 82، صحیح.
(7) صحیح ابن حبان : 1118 وسندہ حسن، وانظر مسند أحمد ط ؛الرسالہ (14/ 130)
(8) سنن ابی داود : 182، سنن الترمذی : وسندہ صحیح.
(9) لقاء الباب المفتوح : 9/ 49.
(10) المستدرک للحاکم : 3/ 288 ، وعلى فرض صحته فهو محمول على من يبلغ حد الشهوة أو على الندب كما فى السراج المنير للعزيزى (٣/ ٣٥٩)

حافظ محمد طاھر