سوال (2214)

کمپیوٹر سافٹ ویئرز کے ذریعے کارٹون بنانا شرعی اعتبار سے کیسا ہے؟

جواب

کارٹوں بنتے ہی کمپیوٹر کے ذریعے ہیں، اس میں اشکال یہ ہے کہ تصویر کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ یہ حقیقی انسان کا ہی عکس محفوظ کیا گیا ہے، اس میں اپنی طرف سے الگ سے کوئی تصویر نہیں بنائی گئی۔ جبکہ کارٹون ڈیزائنر خود اپنی طرف سے ایک کردار تخلیق کرتا ہے، تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
غیر حقیقی کردار تخلیق کرنے کی مثال پرانے زمانے کے کھلونے اور گڑیائیں وغیرہ ہو سکتی ہیں.. بچوں کے کھیل کے لیے اس قسم کی چیزوں کی گنجائش کی مثالیں ملتی ہیں، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس کھیلنے کے لیے گڑیائیں تھیں۔ اس سے بچوں کے لیے کھلونے اور کارٹون وغیرہ بنانے کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے۔
شیخ ابن عثیمین اور بعض دیگر علمائے کرام نے کارٹون کی حلت و حرمت کو مصلحت و منفعت کے ساتھ جوڑا ہے، کہ اگر تو ان کا مواد بچوں کی تعلیم و تربیت میں مفید ہو، تو یہ درست ہیں، اگر اس میں خلاف شرع چیزیں ہوں اور بچوں کی اخلاقیات اور نفسیات پر برے اثرات پڑتے ہوں، تو پھر یہ چيزیں جائز نہیں ہیں ہے۔
بہر صورت ہمارے ہاں ان چیزوں میں شریعت کا خیال کم اور تکنیکی اور فنی معاملات پر توجہ زیادہ ہوتی ہے.. یہی وجہ ہے کہ خالص اسلامی اداروں کی طرف سے بنائی گئی ویڈیوز میں بھی کئی ایک خلاف شرع چیزیں ہوتی ہیں، مثلا:
مرد و زن کا اختلاط دکھانا. بالغ عورتوں کو بے پردہ دکھانا وغیرہ۔
وجہ صرف عدم توجہ اور شرعی معاملات کو اس قدر سنجیدہ نہیں لیا جاتا، جس قدر ٹیکنیکل چیزوں پر توجہ دی جاتی ہے.. ورنہ شرعی احکامات کی پابندی کرتے ہوئے ایسے معاملات سرانجام دیے جا سکتے ہیں. واللہ الموفق.

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

پیغام کارٹون سیریز ( تحسین و تنقید)

فیس بک پر پیغام ٹی وی کی ایک کارٹون سیریز زیرِ بحث ہے۔ چند دن قبل پیغام نے اپنے آفیشل چینلز سے اس سیریز کا پہلا ایپی سوڈ نشر کیا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ اپنی نوعیت کی منفرد کاوش ہے۔ اس سے قبل دعوتِ اسلامی کی کارٹون سیریز مذہبی طبقے میں معروف ہوئی تھی۔
بلاشبہ پیغام نے اسلام پسند عوام کے اس سوال کا جواب تلاشْنے کی کوشش کی ہے کہ بچوں کو کیا دکھائیں؟ اور یقیناً اس کے پیچھے امت کے بچوں کو الحاد و لادینیت سکھانے والے کارٹونز سے بچا کر کسی مثبت سمت ڈالنے کا مقصد ہی کار فرما ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ معاشرے میں پیدا ہونے والا ہر کام اپنے حاملین و ناقدین پیدا کرتا ہی ہے، سو یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔
پیغام ٹی وی کے اس اقدام کی جہاں بہت تحسین کی گئی، وہیں کچھ تحفظات بھی مختلف لوگوں کی طرف سے سامنے آئے ہیں۔ تنقید کرنے والوں میں سنجیدہ و غیر سنجیدہ ہر دو طبقے کے لوگ شامل ہیں۔
◾ اس سیریز پر تنقید کرنے والا پہلا طبقہ تو وہ ہے جن کے خیال میں کارٹون بنانا یا اس طرح کی دیگر ایکٹیویٹیز سِرے سے ہی غیر مفید ہیں۔ ان کے خیال میں کارٹونز صرف کارٹونز ہوتے ہیں ان کے ساتھ اسلامی یا سیکولر کا سابقہ اضافی چیز ہے۔ مزید ان کا کہنا یہ ہے کہ کارٹونز دیکھنے سے بچوں کی رغبت کارٹونز ہی کی طرف مزید بڑھے گی نہ کہ ان میں پیش کردہ اسلامی اقدار و روایات کی طرف۔ سو جب بچے ان کارٹونز سے بوریت محسوس کریں گے ( جو کہ ان کے خیال میں لازمی نتیجہ ہے کیونکہ دوسرے کارٹونز اپنی پروڈکش، گرافکس اور دیگر معیارات میں ان سے بہتر ہیں) تو دوسری آپشن پھر وہی کارٹونز ہوں گے جن سے بچانے کے لیے یہ کوشش کی گئی ہے۔ لہٰذا ہمیں اتنا خطیر سرمایہ ان کاموں میں صَرَف کرنے کے بجائے بچوں کو اسکرین ایڈکشن سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایک دلائل ان لوگوں کی جانب سے دیے جا رہے ہیں۔
( میرے خیال میں یہ ایک سنجیدہ سوال ہے جس پر غور و خوض کی بہر حال ضرورت ہے کہ یہ کوشش اپنے مقصد کے لیے کس حد تک مفید ثابت ہو سکے گی؟ یا اس سے کم از کم وہ نتائج اخذ ہو سکیں گے جن کی امید اس سے وابستہ ہے؟)
اس سوال کا ممکنہ جواب یہ ہو سکتا ہے کہ اس سیریز کا مقصد ہرگز بچوں کو کارٹونز دیکھنے کے لیے موٹیویٹ کرنا نہیں ہے بلکہ یہ سیریز ان بچوں کے لیے ہے جو ( کسی بھی سبب سے) کارٹون ایڈکشن کا شکار ہیں اور سنجیدہ والدین پریشان ہیں کہ کہیں ان کے بچے لادینیت کی طرف نہ نکل جائیں۔ سو ان بچوں کو ایک بڑے گند سے نکال کر ہلکے “گند” میں ڈالنے کا کام یہ سیریز کرے گی۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ بڑا منکر ختم کرنے کے لیے چھوٹے منکر کو برداشت کیا جاتا ہے۔ یعنی بچے کارٹونز تو دیکھیں گے لیکن کارٹونز کی شکل ذرا بہتر کردی جائے گی۔
( میرے خیال میں یہ بات درست ہو سکتی ہے۔ لیکن اس عمل کو اضطرار سمجھتے ہوئے ایک حد تک ہی رکھنا چاہیے اور بچوں کو اسکرین سے دور رکھنے ہی کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا ہوتا نہیں ہے بلکہ وہ چیز بالآخر مقصد بن جاتی ہے، جس کی کئی ایک مثالیں دی جا سکتی ہیں۔)
◾ دوسرا طبقہ وہ ہے جن کے خیال میں اسلامی کارٹونز میں سب کچھ ( لباس وغیرہ تک) اسلامی ہی ہونا چاہیے۔ ان کے اعتراضات کے کچھ نمونے یہ ہیں: لباس اسلامی نہیں ہے، خواتین بے پردہ دکھائی گئی ہیں، مردوں کی شلوار ٹخنوں سے نیچے ہے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی ان کے خیال میں یہ اسلامی تعلیمات کی درست ترجمانی نہیں ہے۔
یہ اعتراض بھی اپنی جگہ درست ہے لیکن میرے خیال میں ان اعترضات کو رفع کرنا تقریباً ناممکن ہے، اس کی بے شمار وجوہات ہیں جن کا ذکر باعثِ طوالت ہوگا۔
ان لوگوں کو تسلی اس طرح دی جا سکتی ہے کہ پیغام کا دعویٰ ہرگز یہ نہیں کہ وہ مکمل اسلامی تعلیمات کی نمائندگی کر رہا ہے بلکہ اس نے تو ایک بڑے منکر سے نکالنے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے جس کا ذکر اوپر گزر چکا۔ سو اس میں بہت سی خرابیاں موجود ہی رہیں گی لیکن یہ ان خرابیوں سے بہر حال کم تر درجے کی ہوں گی جن کا معاشرے کو اس وقت سامنا ہے۔
◾ تیسرا طبقہ وہ ہے جو اس کارٹون سیریز کے کانٹینٹ پر نقد کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کے خیال میں پیغام کا یہ عمل قابلِ تحسین ضرور ہے لیکن سٹوری، گرافکس اور دیگر معیارات کو بہت بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک بڑا اعتراض جو ان لوگوں کی طرف سے کیا جا رہا وہ اس سیریز میں چلنے والی ایڈورٹائزمنٹ کے حوالے سے ہے۔ اور یہ اعتراض بالکل بجا ہے۔
میں نے یہ ایپی سوڈ مکمل دیکھا ہے اور نوٹ کیا ہے کہ رائٹر نے بہت تکلف سے ہر سین میں اسپانسر کمپنی کو گھسیڑنے کی کوشش کی ہے جو کہ انتہائی نا مناسب ہے۔ بلاشبہ کمپنیز کی ایڈورٹائزمنٹ ایسے پراجیکٹس کی لازمی مجبوری ہوتی ہے لیکن اس مجبوری کو ذرا ڈیسنٹ انداز میں نبھایا جا سکتا ہے۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ پہلے ایپی سوڈ میں سٹوری کوئی زیادہ ایٹریکٹو نہیں تھی جو کہ ہونی چاہیے۔ گرافکس بھی بہت زیادہ اچھے نہیں ہیں جو کہ نہایت ضروری ہوتے ہیں، ان کے علاوہ بھی پروڈکشن کے حوالے سے بہت سی چیزیں قابلِ غور ہیں۔
لہٰذا اگر پیغام ٹی وی اس پراجیکٹ کو جاری رکھنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہے تو اسے مزید محنت کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے اچھے رائٹرز تلاش کیے جائیں تاکہ آپ کی سٹوری بچوں کو ایٹریکٹ کرے نہ کہ وہ ایک دو ایپی سوڈز کے بعد بوریت محسوس کریں۔ اس کے علاوہ گرافکس کو بہتر کرنے کی کوشش کی جائے کہ یہی کارٹونز کا حسن ہوتے ہیں وغیرہ۔
آخر میں درخواست ان دوستوں سے ہے جو اس کام پر پیغام کا تمسخر اڑا رہے ہیں اور اسے مختلف مفادات سے جوڑ رہے ہیں کہ خدارا ذرا دھیرے چلیے!
مجھے ایک قریبی دوست نے بتایا جو اس شعبے کی اچھی معلومات رکھتے ہیں کہ اس طرح کا ایک ایپی سوڈ تیار کرنے میں کروڑوں روپے کا خرچ آتا ہے۔ دیکھیں، اس سیریز میں بے شمار نقائص ہو سکتے ہیں جن میں سے کچھ ہم ذکر کر چکے ہیں لیکن “کوئی احمق بھی کروڑوں روپے اپنے لیے جہنم خریدنے کے لیے نہیں اڑاتا۔”
آپ اعتراض کریں، سوال اٹھائیں کہ یہ آپ کا حق ہے۔ لیکن کم از کم پیغام کے اس جذبے کی قدر کریں جس کے تحت اتنا بڑا پراجیکٹ پلان ہوا ہے۔ کیونکہ ربِ کریم کی بارگاہ میں تو غلطی کرنے والا بھی اپنے اخلاص کی بدولت اجر پاتا ہے۔
هذا ما كان عندي…

فضیلۃ العالم ثناء الرحمٰن ثنائی حفظہ اللہ