رمضان المبارک میں ’خلاصہ قرآن‘ وغیرہ کے عناوین سے’ منتخب مضامین قرآن کریم‘ کو بیان کرنے کا ایک اچھا سلسلہ جاری ہوتا ہے۔
وقت کی قلت اور منظم ومرتب نکات نہ ہونے کے سبب عموما یہ چند آیت پر تقریر ہی ہوتی ہے، مکمل پارے یا سورت کا بیان نہیں ہوتا۔
عربی زبان میں “القرآن تدبر وعمل” کے عنوان سے ایک مختصر تفسیر قرآن مرتب کی گئی ہے۔
اگر اسے سامنے رکھ کر اوپر سے دیکھ کر صرف اس میں موجود نکات کا مفہوم یا ترجمانی کردی جائے، تو ہمارے ہاں ہونے والے ’درس قرآن‘ یا ’خلاصہ قرآن‘ مزید بہتر ہوسکتے ہیں، معلومات بھی زیادہ ہوں گی، محدود مدت میں یہ سلسلہ مکمل بھی ہوجائے گا، اور درس قرآن کے فرائض سرانجام دینے والے کو تیاری کرنے میں بھی دقت نہیں ہو گی۔

ہدف و مقصد

اس کتاب کا ہدف قرآن کریم میں غور وفکر اور تدبر اور پھر عمل پیرا ہونے کا مزاج پیدا کرنا ہے۔ کتاب کی ضرورت و حاجت کو یوں واضح کیا گیا ہے کہ قرآن کریم سے فائدہ اٹھانے اور اس سے تعلق قائم رکھنے کی پانچ صورتیں ہیں:
1۔ قرآن کریم کو سننا
2۔ تلاوت کرنا۔
3۔ زبانی یاد کرنا
4۔ تدبر اور غور وفکر کرنا
5۔ عمل پیرا ہونا۔
صحابہ کرام قرآن کی تلاوت اور تعلیم کے ساتھ ساتھ اس میں غور وفکر وتدبر بھی کرتے، اور جب تک اس پر عمل نہ کرلیتے، اس سے اگلی سورت یا آیات کی طرف نہیں بڑھتے تھے۔
ہمارے ہاں پہلی تین چیزوں کا خیال تو بہت حد تک رکھا جاتا ہے، باقاعدہ مدارس وغیرہ موجود ہیں، جو قرآن کریم کے سماع وتلاوت اور حفظ کا اہتمام کرواتے ہیں۔
جبکہ آخری دو پر نسبتا بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ اور خامی کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ حفظ وتلاوت تو باقاعدہ ہمارے تعلیمی نظم کا حصہ ہیں، جبکہ تدبر اور عمل کی اس طرح مشق کروانے کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔
’القرآن تدبر وعمل‘ نامی کتاب کو اسی بنیاد اور ذہن کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے، جس کے ذریعے چھوٹوں بڑوں کو تدبر قرآن کی مشق کرائی جاسکتی ہے، اور ان میں عمل بالقرآن کا مزاج پیدا کیا جاسکتا ہے۔
یہ باقاعدہ ایک نصابی کتاب ہے، جس میں قرآن کریم کے ہر صفحے میں موجود آیات کا مفہوم، مشکل الفاظ کے معانی موجود ہیں، اس سے حاصل ہونے والی رہنمائی کا بیان ہے، اور ساتھ سوال دیے ہوئے ہیں، تاکہ قاری اس کا جواب سوچتے ہوئے محسوس کرسکے کہ اس نے اس آیت یا آیات سے سے کوئی سبق حاصل کیا ہے کہ نہیں؟
پھر ایک الگ خانے میں ہر صفحے میں موجود آیات سے جو عملی پہلو سامنے آتے ہیں، انہیں درج کیا گیا ہے کہ قاری کو ان آیات کو پڑھنے کے بعد درج ذیل نیک اعمال کرنے چاہییں، وغیرہ۔

’القرآن تدبر و عمل‘ کا طریقہ کار

’القرآن تدبر و عمل‘ کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے سورہ فاتحہ سے مثال:
سورہ فاتحہ پر غور وفکر کرنے کے لیے سات نکات بیان کیے گئے ہیں:
1۔ الحمد للہ میں حمد باری تعالی کو صرف اللہ کے لیے خاص کیا گیا، اور آگے اس کی توجیہ بیان گئی کہ اگر تم کسی کی ذات و نام سے متاثر ہوتے تو اللہ تعالی سے متاثر ہو جاؤ، اگر کسی کے انعام و اکرام کی وجہ سے اس کی تعریف کرتے ہو ’رب العالمین‘ اس کا مستحق ہے، اگر مستقبل میں کسی سے خیر کی امید رکھتے ہوئے یہ کرتے تو ’الرحمن الرحیم‘ یعنی قیامت کے دن تک رحیم و شفیق ذات کی تعریف کرو، اور اگر کسی کی قوت و طاقت سے ڈرتے ہو اس ذات کی تعریف کرو جو ’مالک یوم الدین‘ ہے۔
ان چار باتوں کو بیان کرنے کے بعد آگے سوال دے دیا گیا کہ اللہ تعالی حمد کا کیوں مستحق ہے؟
اور آگے جواب کے لیے خالی سطریں چھوڑ دی گئی ہیں۔ جہاں ظاہر اوپر بیان کردہ چار باتیں ہی لکھنی ہیں۔
2۔ ابن قیم کی نکتہ رسی نقل کی گئی ہے کہ سورہ فاتحہ میں انسان اللہ تعالی کے اسماء وصفات کو ذکر کرکے، اپنے موحد ہونے کا اقرار کرتا ہے، اور پھر اللہ تعالی سے ہدایت کی دعا کرتا ہے، اور یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں کہ ان کا وسیلہ دے کر دعا رد نہیں ہوتی۔
پھر سوال: قبولیت دعا کے کون سے دو وسیلے یہاں ذکر ہوئے ہیں؟
3۔ ایاک نعبد وإیاک نستعین میں عبادت میں توحید کا اقرار کے بعد استعانت میں بھی توحید کا اقرار کیا گیا ہے، حالانکہ استعانت بھی عبادت کی شکلوں میں سے ہی ایک شکل ہے؟ جواب دیا گیا کہ استعانت کو اس کی اہمیت کے پیش نظر الگ سےبیان کیا، کیونکہ تمام عبادات اور اوامر ونواہی میں حکم الہی کی پیروی بھی اس سے استعانت کے بعد ہی ممکن ہے۔
یہاں پھر سوال ہے۔
4۔ اگلا نکتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے عبادت کا حکم دینے سے پہلے اپنی الوہیت و ربوبیت کو بیان کرکے اپنا مستحق عبادت ہونا بیان کیا ہے، تاکہ سمجھ آجائے کہ کیوں صرف اللہ ہی عبادت کا مستحق ہے۔
یہاں بھی سوال کہ اللہ تعالی ہی عبادت کا مستحق کیوں ہے؟
5۔ نعبد میں جمع کا صیغہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نماز کا ایک بنیادی مقصد اجتماعیت ہے۔
یہاں بھی سوال ہے۔
6۔ اگلا نکتہ اللہ تعالی سے دعا مانگتے ہوئے صرف ہدایت طلب کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے، دنیا کی کامیابی ، ترقی اور رزوق وغیرہ نہیں مانگا گیا، کیونکہ ہدایت ان سب سے اہم ہے، اور جب ہدایت مل جاتی ہے یہ چیزیں بھی خود بخود مل جاتی ہیں، ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لایحتسب۔
یہاں پھر سوال ہے۔
7۔ صراط مستقیم کے حوالے سے آخری نکتہ یہ بیان کیا گیا کہ انسان دنیا میں جس قدر ’صراط مستقیم‘ پر گامزن رہے گا، آخرت میں ’پل صراط‘ اسی قدر آسان ہوگا۔
یہاں بھی سوال ہے۔
سورہ فاتحہ سے واضح ہونے والے عملی پہلو:
1۔ اس سے ہمیں اللہ سے دعا کی ترغیب ملی ہے، اور دعا کا طریقہ بھی سمجھ آیا کہ اللہ تعالی کی حمد وثنا سے ابتدا کرنی ہے۔
2۔ فاتحہ قرآن کی سب سے عظیم اور بار بار پڑھی جانے والی سورت ہے، لہذا اسے سمجھنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی جائے، کتب تفاسیر کھول کر اس کے معانی و مفاہیم پر اور زیادہ غور و فکر کیا جائے۔
3۔ نیک و صالح لوگوں کو تلاش کریں، اور ان کی صحبت و مجلس اختیار کریں، کیونکہ ایسے لوگ ’انعمت علیہم‘ کا مصداق ہوتے ہیں۔

ڈاؤن لوڈ لنک

http://www.altadabbur.com/