غامدی صاحب نے پھر سے شرلی چھوڑی ہے۔ فرماتے ہیں: “درس نظامی میوزیم میں رکھنے کی چیز ہے۔”
بندہء خدا! تیرا ہر ڈاکہ اہل مدرسہ پر پڑ رہا ہے۔ تیرے سب سے بہترین شاگرد اہل مدرسہ سے ہیں، لیکن پھر بھی نزلہ سارا اہل مدرسہ پر گرتا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ اہل مدرسہ ہی ہیں، جو غامدی صاحب کی ڈٹ کر مخالفت کررہے ہیں، اہل مدرسہ ہی ہیں، جن کے پاس فتویٰ کا اختیار ہے اور ان کے فتاویٰ آپ کو گمراہ ثابت کرچکے ہیں۔ اہل السنۃ سے خارج قرار دے چکے ہیں۔ ایسے میں آپ کا دل کیونکر ان کو برا بھلا کہنے اور ہر موقع پر ڈس کریڈٹ کرنے سے بھرے گا؟
یہ بندہء عاجز اسکول، کالج، پھر مدرسہ اور پھر یونیورسٹی دیکھنے کے بعد یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہے کہ علمی استعداد، کلام کو سمجھنے کا، سوال و جواب کا، نفس مضمون سمجھنے کا، خلاصہ نکالنے کا جو ملکہ مدارس میں حاصل ہوتا ہے، کسی دوسرے تعلیمی ادارے میں اس کا عشرعشیر بھی نہیں ہو پاتا۔
تعلیمی، انتظامی اور کئی قسم کی اخلاقی کمیوں کے علی الرغم آج بھی درس نظامی جیسا مضبوط استعداد کا حامل نصاب کسی ادارہ میں رائج نہیں۔ یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے۔

جس بھی صاحب کو دیکھو کہ وہ مدرسہ، اہل مدرسہ اور علما پر تنقید کررہا ہے، اس کے علاوہ انکار روایت کررہا ہے۔  روایت کو کمزور کررہا ہے۔ جو بھی یہ کر رہا ہے تو جان لیجئے کہ یہ تجدد و اصلاح کے لئے راستہ نکال رہا ہے۔ چاہے اپنی ذات کی خاطر ہو، چاہے اپنے کسی صاحب و اعوان کی خاطر ہو۔ ڈسکورسی حضرات کو جہاں پر دیکھیں گے، یہ حضرات خواہی نخواہی روایت یا اس کے مظاہر مثلاً روایتی علماء اور ان کے کام مثلاً مناظرہ،مکالمہ اور مجادلہ کو کسی نہ کسی طریقے سے مطعون اور کمزور کرنے کی کوشش کرتے پائے جائیں گے۔
یاد رہے کہ یہ سمجھتے ہوں یا نہیں، لیکن اس طرح یہ اپنے بڑے استادوں مثلاً جاوید احمد غامدی، عمار خان ناصر اور ابراہیم موسیٰ کی تجددی سوچ اور خودساختہ اصلاح کے لیے رستہ بناتے پائے جائیں گے۔
یاد رہے کہ غامدی ہو، عمار خان ہو یا ابراہیم موسی، یہ سب شریعت میں تجدد اور اصلاح کے دعویدار ہیں۔ غامدی حدیث کو حجت نہیں مانتا اور قرآن کی تفسیر کو عمود کے گرد رکھ کرمحدود کرتا ہے۔ عمار خان ناصر دین کی تشریح میں تاریخیت کو عنوان بنا کر پچھلی پوری روایت کو تاریخ بناتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ قرآن وسنت کی نئے سرے سے تشریح ہوجائے جبکہ ابراہیم موسیٰ تو پوری شریعت کو ہی موقت مانتے ہیں اور فی زمانہ اپنے احوال میں اپنے لئے نئے احکام من بطنہ استخراج کے قائل ہیں۔
ڈسکورسی حضرات سے گذارش ہے کہ جب بھی آپ روایت یا اس کے متعلقین کے بارےمیں طعن کریں تو آپ سمجھ لیں کہ ان تین مقاصد میں سے کسی ایک کو پانی دے رہے ہوتے ہیں۔

علی عمران