خطبہ جمعہ کے لیے منبر پر بیٹھنے ہی لگا تھا کہ ایک بزرگ نے رعب دار آواز میں کہا: ” حافظ صاحب پنجابی وچ تقریر کریا جے، سانوں اردواں انگریجیاں دی کوئی سمجھ نئیں اوندی تواڈی مہربانی !!!
ساتھ ہی ایک دو اور بزرگوں نے اس ڈیمانڈ کی تائید کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کے انداز میں کہا: “پتر آپنی زبان اے پھیر کی ہویا۔ کوشش تے کرو ”
اس تحکم سے لبریز “گذارش” کو سن کر تو لمحہ بھر سوچ میں پڑگیا۔ کہ یہ کیسے ممکن ہو سکے گا جس نے کبھی پانچ منٹ بھی پنجابی میں تقریر نہیں کی اب پورا خظبہ جمعہ پنجابی زبان میں کیسے دے پائے گا۔ لمحہ بھر تو کچھ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ اب کروں تو کیا کروں؟ آخر اللہ سے مدد طلب کی اور ارادہ کر لیا کہ آج کوشش ضرور کروں گا۔ اگر زبان و بیان کی غیر روانی بات کی تفہیم میں حائل ہوئی تو اس کے بھی یہ خود ہی ذمہ دار ہیں۔
خطبہ مسنونہ اور موضوعاتی ادلہ کی تلاوت کے بعد لاؤڈ سپیکر میں کہہ دیا کہ ‘حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آج پنجابی میں خطبہ جمعہ دوں گا، ابلاغ اور لسانی روانی نہ ہونے پر پیشگی معذرت ہے۔
خیر ایک نئے تجربے کی بنا پر شروع میں کافی دقت محسوس ہوئی، رواں رواں زبان کی گرہ کھلتی گئی۔ اللہ کی خاص مدد شامل حال رہی۔ دوران خطبہ سامعین کی باڈی لینگویج سے ابزرو تو کر لیا کہ بات سمجھ آرہی ہے اور کلام میں تاثیر بھی ہے، بحول اللہ و قوتہ والحمد للہ علی ذالک۔
اختتام جمعہ پر اسی بزرگ سے پوچھا ‘تواڈے حکم نوں من تے لیا پر ہون کوئی سمجھ وی آئی؟ بزرگ بہت خوش ہوئے شکریہ ادار کیا اور کہا: “ٹھیک سمجھ آئی سواد آگیا حافظ صاحب ایداں ای جمعہ پڑھایا کرو۔”

جمعہ کے بعد ایک بات کا احساس ہوا وہ یہ تھی کہ ہم کتنے ہی ایسے معاملات کو محض اپنی کمفرٹ اور سہل پسندی کے پیش نظر اپنا لیتے ہیں اور ہمارے یہ معاملات ہمارے لیے جمود کی مانند ہوتے ہیں کہ ان سے آگے پیچھے ہوئے تو نہ جانے کیا ہوجائے گا۔ ہمارے لیے اس کمفرٹ زون سے نکلنا بعض اوقات بہت زیادہ مشکل نظر آتا ہے، جس میں ہم جی رہے ہوتے ہیں۔  یہ معاملہ صرف اسی مسئلہ کے بیچ نہیں ہے۔ زندگی کا یہی اصول ہے، مگر انسان فطری طور پر سہل پسند ہے۔ جبکہ حقیقت میں اس سے آگے ہی کامیابی کے دروازے کھلتے ہیں۔
دعوت الی اللہ کے بارے میں تو یہ بات بنیادی ہے کہ بات کی تفہیم ضروری ہے تبھی جا کر اس کا مقصد کلی حاصل ہوتا ہے۔ لوگوں کو بات سمجھ آئے اگرسامعین اور ناظرین کی مادری زبان میں بات کی جائے اور ان کے پیرائے میں بات بیان کی جائے گی تو ابلاغ بہتر ہوگا۔
دراصل زبان کا یہ مسئلہ کئی ایک اہل پنجاب کے اردو نوجوان خطبا اور واعظین کو درپے ہے جو دیہی علاقوں میں خطابت کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں دیہات کے بڑی عمر کے برزگ اور خواتین کی خواہش ہوتی ہے کہ پنجابی میں وعظ کیا جائے۔ ہو سکے تو طرز اور لے سے بیان سنایا جائے۔ ساتھ متعلقہ پنجابی شعر بھی پڑھے جائیں تاکہ تلذذ کا سامان بھی پیدا ہو سکے۔ مگر شہری ماحول میں پڑھنے والے اور پروان چڑھنے والے واعظین کے لیے ایسا کرنا کبھی کبھی مشکل ہوتا ہے۔ اگر تو مشتقل اس عمل کو شروع کرلیں تو پھر روٹین بن جاتی ہے۔

الیاس حامد