دینی تعلیمات سے متعلق اعتراضات کی وجہ

ہمارے ہاں آج کل یہ بات زبان زد عام ہے کہ نئی جنریشن بڑی ذہین ہے، اور یہ مکھی پر مکھی مارنے کی بجائے عقل کا استعمال کرتے ہیں، لہذا ان کے ذہن میں سوالات زیادہ آتے ہیں…!!
حالانکہ میری نظر میں اس قسم کے سب سوالات کی بنیاد یہ ہے کہ ہم بچوں میں ایمان مضبوط نہیں کرپاتے اور انہیں کلام اللہ اور وحی کی اہمیت واضح نہیں کرپاتے۔
یہ سطحی بات ہے کہ نئی نسل کے سوالات کے جوابات نہیں ہیں، بھئی جس نسل میں سوال پیدا کرنے والے دماغ ہیں، اسی نسل میں جواب دینے والے دماغ کیوں نہیں ہوسکتے؟
اصل غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جو بھی بچہ یا بڑا اس قسم کے سوالات و اعتراضات میں الجھا رہے.. اس کو ذہنی اور دماغی طور پر توجہ کی ضرورت ہے۔
جیسا کہ کوئی بچہ اپنی ماں یا باپ سے یہ کہنا شروع ہوجائے کہ مجھے کمرے سے ڈر لگتا ہے.. اندھیرے سے گھبراہٹ ہوتی ہے.. وغیرہ.. آپ وقتی طور پر اس کا وہ ڈر بھی ختم کریں گے.. لیکن اصل اس بات کو بھی سوچنا پڑے گا کہ اس بچے کو دماغی کمزوری ہے… جو اس کو ہر چيز سے خوف آنا شروع ہوگیا ہے، ورنہ آپ ایک مسئلہ حل کریں گے اسے دوسرا پیش آجائے گا، پھر تیسرا پھر چوتھا اور لامتناعی سلسلہ!!
قرآن و حدیث اور اسلامی تعلیمات سے متعلق ذہنوں میں ابھرنے والا سوالات پر بھی اس انداز سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پہلے لوگ ہم سے زیادہ حساس اور سمجھدار تھے وہ قرآن کریم پڑھتے اور سمجھتے بھی ہم سے زیادہ تھے… لیکن اس کے باوجود ان کے ذہنوں میں ایسے اعتراضات نہیں آتے تھے.. جبکہ ہمارا قرآن کریم سے وہ تعلق بھی نہیں.. تلاوت، ترجمہ و تفسیر ہر چيز میں کوتاہی کرتے ہیں.. لیکن جو کچھ دین سے تعلق ہے، اس کے بارے میں بھی اوہام و خیالات کا شکار ہوجاتے ہیں… اس کی وجہ ذہانت و فطانت اور عقلمندی کی بجائے ایمانی کمزوریاں اور عملی کوتاہیاں ہیں، جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کے حال پر رحم فرمائے۔
میری تحریر سے کوئی یہ مطلب نہ نکالے کہ میں سوالات کو دبانے کی بات کر رہا ہوں، یا میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو اعتراض یا اشکال پیش کرے، اس کے ایمان پر حملہ آور ہوجائیں، تاکہ اس کے سوال کا جواب نہ دینا پڑے، جیسا کہ بعض لوگ پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔
ہم اللہ کا شکر ہے، ہر سوال کا جواب دیتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ سوالات پیدا ہونے کی وجوہات کو سمجھ کر، ان کے سد باب کی بھی کوشش کرتے ہیں۔

#خیال_خاطر