سوال (1276)

عیدین کی زائد تکبیرات میں رفع الیدین کرنا کیا نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟

جواب

اصل صورت سوال یوں ہونی چاہیے کہ کیا تکبیرات عید میں رفع الیدین کرنا درست ہے؟ورنہ اگر ثابت کا سوال کیا جائے تو ایک الزامی سا سوال ہے۔
کیا سرخ رومال زیب سر کر کے نماز پڑھنا پڑھانا ثابت ہے ؟
کیا ایسا سوال کرنا درست ہوگا ؟

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

بیھقی کی روایت میں مرفوعاً ذکر ہے کہ قبل الرکوع ہر تکبیر میں رفع الیدین فرماتے تھے ، مزید ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کے آثار بھی غالبا ملتے ہیں ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اس حوالے سے فضیلۃ الشیخ علامہ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظه الله کا ایک مضمون ذکر کیا جاتا ہے ۔
تکبیرات عید میں رفع الیدین
تکبیرات عیدین میں رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،جیسا کہ : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں

کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ، حَتّٰی إِذَا کَانَتَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ کَبَّرَ، ثُمَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَّرْکَعَ رَفَعَہُمَا، حَتّٰی یَکُونَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ، کَبَّرَ وَہُمَا کَذٰلِکَ، فَرَکَعَ، ثُمَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَّرْفَعَ صُلْبَہٗ رَفَعَہُمَا، حَتّٰی یَکُونَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ، ثُمَّ قَالَ : سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ، ثُمَّ یَسْجُدُ، فَلَا یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِي السُّجُودِ، وَرَفَعَہُمَا فِي کُلِّ رَکْعَۃٍ وَّتَکْبِیرَۃٍ کَبَّرَہَا قَبْلَ الرُّکُوعِ، حَتّٰی تَنْقَضِيَ صَلَاتُہٗ ۔

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے، تو دونوں ہاتھوں کو بلند فرماتے،حتی کہ جب وہ کندھوں کے برابر ہو جاتے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’اللہ اکبر‘ کہتے۔ پھر جب رکوع کا ارادہ فرماتے، تو دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے،حتی کہ وہ کندھوں کے برابر ہو جاتے،اسی حالت میں آپ ’اللہ اکبر‘کہتے۔پھر رکوع فرماتے۔جب آپ رکوع سے اپنی کمر اٹھانے کا ارادہ فرماتے، تو دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے،پھر ’سمع اللہ لمن حمدہٗ‘کہتے۔پھر سجدہ کرتے،لیکن سجدے میں رفع الیدین نہیں فرماتے تھے،البتہ ہر رکوع اور رکوع سے پہلے ہر تکبیر پر رفع الیدین فرماتے تھے،حتی کہ اسی طرح آپ کی نماز مکمل ہو جاتی۔‘‘
[سنن أبي داوٗد : 722، المنتقٰی لابن الجارود : 178، والسیاق لہٗ، وسندہٗ حسن]
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رکوع سے پہلے کہی جانے والی ہر تکبیر پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رفع الیدین فرماتے تھے۔تکبیرات ِعیدین بھی چونکہ رکوع سے پہلے ہوتی ہیں، لہٰذا ان میں رفع الیدین کرنا سنت ِنبوی سے ثابت ہے۔
ائمہ حدیث نے بھی اس حدیث کو تکبیرات ِعیدین میں رفع الیدین پر دلیل بنایا ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ :
امام،ابو عبد اللہ، محمد بن ادریس،شافعی رحمہ اللہ (204-150ھ)فرماتے ہیں :

وَیَرْفَعُ یَدَیْہِ فِي کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ عَلٰی جَنَازَۃٍ خَبَرًا، وَقِیَاسًا عَلٰی أَنَّہٗ تَکْبِیرٌ وَّہُوَ قَائِمٌ، وَفِي کُلِّ تَکْبِیرِ الْعِیدَیْنِ ۔

’’نمازِ جنازہ اور عیدین کی ہر تکبیر پر رفع الیدین کیا جائے گا،حدیث ِنبوی کی بنا پر بھی اور یہ قیاس کرتے ہوئے بھی کہ قیام کی تکبیر پر رفع الیدین کیا جاتا ہے۔‘‘
[الأمّ : 127/1]
امام ابن منذر رحمہ اللہ :
امام،ابوبکر،محمد بن ابراہیم،ابن منذر،نیشاپوری رحمہ اللہ (319-242ھ)فرماتے ہیں :

وَلِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَیَّنَ رَفْعَ الْیَدَیْنِ فِي کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ یُّکَبِّرُہَا الْمَرْئُ وَہُوَ قَائِمٌ، وَکَانَتْ تَّکْبِیرَاتُ الْعِیدَیْنِ وَالْجَنَائِزِ فِي مَوْضِعِ الْقِیَامِ، ثَبَتَ رَفْعُ الْیَدَیْنِ فِیہَا ۔۔۔۔۔۔

’’اس لیے بھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام میں ہر تکبیر پر رفع الیدین بیان فرمایا ہے اور عیدین و جنازہ کی تکبیرات بھی قیام ہی میں ہیں، لہٰذا ان تکبیرات میں رفع الیدین ثابت ہو گیا۔‘‘(الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف : 428/5)
نیز فرماتے ہیں :

سَنَّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَّرْفَعَ الْمُصَلِّي یَدَیْہِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ، وَإِذَا رَکَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوعِ، وَکُلُّ ذٰلِکَ تَکْبِیرٌ فِي حَالِ الْقِیَامِ، فَکُلُّ مَنْ کَبَّرَ فِي حَالِ الْقِیَامِ رَفَعَ یَدَیْہِ اسْتِدْلَالًا بِالسُّنَّۃِ ۔

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کرتے وقت،رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنے کو سنت بنایا ہے۔یہ ساری صورتیں قیام کی حالت میں تکبیر کی ہیں۔لہٰذا جو بھی شخص قیام کی حالت میں تکبیر کہے گا،وہ اسی سنت سے استدلال کرتے ہوئے رفع الیدین کرے گا۔‘‘
[الأوسط : 282/4]
امام بیہقی رحمہ اللہ :
امام، ابوبکر،احمد بن حسین،بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ) نے مذکورہ بالا حدیث پر یوں باب قائم فرمایا ہے :

بَابُ رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِي تَکْبِیرِ الْعِیدِ ۔

’’عید کی تکبیرات میں رفع الیدین کا بیان۔‘‘[السنن الکبرٰی : 411/3]
امام اوزاعی رحمہ اللہ :
امام عبد الرحمن بن عمرو،اوزاعی رحمہ اللہ (م : 157ھ)سے تکبیرات ِعیدین میں رفع الیدین کے بارے میں پوچھا گیا،تو انہوں نے فرمایا :

نَعَمْ، اِرْفَعْ یَدَیْکَ مَعَ کُلِّھِنَّ ۔

’’ہاں،تمام تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین کرو۔‘‘
[أحکام العیدین للفریابي : 136، وسندہٗ صحیحٌ]
امام مالک رحمہ اللہ :
امام مالک بن انس رحمہ اللہ (179-93ھ)سے پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا :

نَعَمْ، اِرْفَعْ یَدَیْکَ مَعَ کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ، وَلَمْ أَسْمَعْ فِیہِ شَیْئًا ۔

’’ہاں، ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرو، میں نے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں سنا۔‘‘[أحکام العیدین للفریابي : 137، وسندہٗ صحیحٌ]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ :
امام اہل سنت،احمد بن حنبل رحمہ اللہ (241-164ھ)فرماتے ہیں :

یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِي کُلِّ تَکْبِیرَۃٍ ۔

’’ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرے گا۔‘‘
[مسائل الإمام أحمد بروایۃ أبي داوٗد : 87]
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ :
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (238-161ھ)کا بھی یہی مذہب ہے۔
(مسائل الإمام أحمد وإسحاق : 4054/8، م : 2890)
احناف کا موقف :
احناف مقلدین بھی عیدین کی زائد تکبیروں میں رفع الیدین کے قائل ہیں، لیکن ان کی دلیل امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک قول ہے،جو کہ ان سے ثابت نہیں۔
وہ قول یوں ہے :

تُرْفَعُ الْـأَیْدِي فِي سَبْعِ مَوَاطِنَ؛ فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ، وَفِي التَّکْبِیرَاتِ لِلْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ، وَفِي الْعِیدَیْنِ ۔۔۔۔۔ ۔

’’سات مواقع پر رفع الیدین کیا جائے گا؛ نماز کے شروع میں، وتروں میں قنوت کی تکبیرات میں، عیدین میں۔۔۔‘‘[شرح معاني الآثار للطحاوي : 178/2]
یہ قول سخت ترین ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ :
1 : اس کے راوی شعیب بن سلیمان بن سلیم کیسانی کی توثیق نہیں مل سکی۔
2 : قاضی ابو یوسف،یعقوب بن ابراہیم جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ہے۔
اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : تَرَکُوہُ ۔
’’محدثین کرام نے اسے چھوڑ دیا تھا۔‘‘(التاریخ الکبیر : 397/8، ت : 3463)
3 : اس کے راوی نعمان بن ثابت بھی باتفاقِ محدثین ’ضعیف‘‘ہیں۔
معلوم ہوا کہ احناف کے پاس تکبیرات ِعیدین میں رفع الیدین کے ثبوت پر کوئی دلیل نہیں۔اگر وہ حدیث پر عمل کریں، تو رکوع جاتے اور سر اٹھاتے وقت کا رفع الیدین بھی ان کے گلے پڑ جائے گا،جس سے وہ بھاگتے ہیں،کیونکہ حدیث میں تو قاعدہ و کلیہ بیان ہوا ہے کہ رکوع سے پہلے کہی گئی ہر تکبیر پر رفع الیدین کرنا سنت ِنبوی ہے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث کے ایک ایک جزو پر اہل حدیث کا عمل ہے۔والحمد للّٰہ!
اس کے برعکس احناف ایک طرف تو رکوع جاتے اور سر اٹھاتے وقت کے رفع الیدین کے تارک ہیں،تو دوسری طرف عیدین کی زائد تکبیرات میں رفع الیدین کے قائل ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نماز ِجنازہ کی تکبیرات میں رفع الیدین کے قائل نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تمام عبادات میں سنت ِرسول کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

تکبیرات عید کے متعلق کوئی مرفوع روایت ثابت نہیں ہے ۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

میرے خیال میں شیخ آپ کو یہ کہنا چاہیے کہ میرے نزدیک ثابت نہیں ہے ، احادیث موجود ہیں ، اوپر لمبی تحریر موجود ہے

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل : شیخ محترم جس حدیث کو حجت بنایا جا رہا ہے وہ تو فرض نماز کے حوالے سے ذکر ہے اگر دیکھا جائے نہ کہ عیدین کی تکبیرات کے حوالے سے ہے ؟
جواب : اس میں “مع کل تکبیرہ ” لفظ بھی محل نظر ہے یہی حدیث صحیحین وغیرہ میں دیکھیے ، واللہ اعلم شیخ ابو عبد اللہ صادق الہاشمی حفظہ اللہ نے اسے شاذ کہا ہے ، تفصیل مجھے معلوم نہیں واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

تکبیرات عیدین پر “البدر المنیر لابن الملقن” میں تفصیلی بحث موجود ہے ۔

قال الامام احمد لا یثبت فی تکبیرات العیدین عن النبی شیء

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

لیکن ان پر کئی ایک اہلِ علم نے اجماع نقل کیا ہے ، بالخصوص جبکہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہیں، ولم يعلم لهم مخالف.

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ

شیخ محترم میں نے فقط مرفوع روایات پر بات کی ہے۔مسئلہ پر نہیں ، صحابہ سے ثابت ہے
تکبیرات کے ساتھ عیدین کی نماز ادا کرنی چاہیے ۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

ویسے اس مسئلے میں منکرینِ اجماع اور آثارِ صحابہ کو کچھ نہ سمجھنے والے مشکل میں ہیں ۔ واللہ أعلم.

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ

شیخ اجماع کی بات نہ بھی ہو ، ہم نبی علیہ السلام کے بعد صحابہ کے عمل سے بلا تفریق دلیل لیتے ہیں۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

و هذا منهج أهل الحديث قديما وحديثا… رغم أنوف الظاهرية…

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ