علماء بہت دفعہ بدعت کی شدت نہیں بلکہ اسے نقصانات و متاثرین کے اعتبار سے دیکھتے ہیں۔
مثلا “واقفہ” کو “لفظیہ” سے اور “لفظیہ” کو “جہمیہ” سے زیادہ خطرناک کہا گیا ۔ حالانکہ ان کی اہلُ السنہ سے دوری کی ترتیب برعکس ہے۔
جہمیہ قرآن مجید کو صریحاً مخلوق کہتے تھے۔ لفظیہ کہتے تھے ہم مخلوق نہیں کہتے۔ اور ذو معنی تعبیر اختیار کرتے کہ ہمارا قرآن مجید کے الفاظ پڑھنا مخلوق ہے یا تلاوتِ قرآن مخلوق ہے وغيرہ۔ وقفیہ کہتے تھے ہم توقف کرتے ہیں نہ کلام اللہ کہتے ہیں نہ مخلوق کہتے ہیں۔
اب بظاہر جہمیہ کی گمراہی بڑی ہے، پھر لفظیہ کی پھر وقفیہ کی۔ لیکن علماء نے زیادہ شدید وقفیہ کو کہا، پھر لفظیہ کو، پھر جہمیہ کو۔ کیوں کہ عوام صریح گمراہی والے سے متاثر ہونے کی بجائے، ڈھکے چھپے الفاظ والے سے متاثر ہوتے ہیں۔
لہذا کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ فلاں توحید پرست تو ہے نا، یا توحید کی دعوت تو دیتا ہے نا تو ہمارے قریب ہے اور فلاں شرک پرست ہے لہذا دور ہے۔ یہ علم و حکمت اور دانش سے پَرے اور سطحی بات ہے۔ یہاں قریبی دوری نہیں بلکہ نقصان کا اعتبار کیا جائے گا کہ اہلُ السنہ کے عوام کو نقصان کس سے ہو رہا ہے، صریح شرکیہ عقائد والا واضح ہے اس کے قریب صحیح العقیدہ عوام بمشکل جاتی ہے جبکہ بظاہر توحید پھیلانے والا، توحید کی آڑ لے کر پورے دین کا حلیہ بگاڑ کر بھی پیش کر دے تو موحدین کو بڑا اچھا لگے گا کہ چلو توحید ہے نا اور بالآخر اس کی دامنِ فریب میں آ جائیں گے۔

اسی طرح آج بھی آپ کو بہت سے ایسے داعی اور سکالر مل جائیں گے جن کے  بظاہر کچھ محاسن سے دھوکے میں پڑ سکتے ہیں کہ یہ بہت اچھا بندہ ہے اور دین کا داعی اور توحید کا دعویدار ہے مگر حقیقی طور پر اس کے خطرے کو دیکھا جائے تو اس کا یہ بھیس یا جہرہ خالص دین کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایسا شخص کتنے ہی لوگوں کی راہ حق سے گمراہی کا سبب بنتا ہے۔

حافظ محمد طاھر