وہ بھی کیا دن تھے کہ سرِ شام ہی سہانے سپنے آنکھوں میں مچلنے لگتے تھے، دل پذیر اور سرمگیں شاموں کے پہلو میں عجیب مسرّت کا احساس جاگزیں ہوتا تھا، مگر ہماری سیاسی قیادت نے عوام سے روٹی کے نولے ہی نہیں چھینے بلکہ ان کی آنکھوں سے تمام سنہرے خواب چھین کر تنگ دستی اور مفلسی سے لدے رَت جگے بھی جھونک دیے ہیں۔ان دل نشیں اور چمکتی دمکتی آنکھوں میں اب زردی اترنے لگی ہے۔آج سیاسی انتشار کے ساتھ ساتھ معاشی خلفشار بھی بد ترین مقام پر پہنچ چکا ہے۔معیشت اتنی تیزی کے ساتھ تنزلی اور نقاہت کی شکار ہے کہ اگر اسے آئی ایم ایف کے وینٹی لیٹر سے ہٹا دیا جائے تو یک دَم ہی دَم چھوڑ جائے گی۔سفید پوش طبقہ بھی کب تک اپنا بھرم قائم رکھ سکے گا۔ندیم اصغر کا شعر ہے۔
فکرِ معاش اور مری شاعری تمام
دونوں ہی آستیں میں پلے زندگی تمام
اقتدار پر متمکن سیاسی ٹولہ مخالفین کا ” مَکّو ٹھپنے “ کے لیے کسی ٹھوس لائحہ عمل کے تیار ہونے تک اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتا ہے، جب کہ حزبِ اختلاف کو عوام کے مفادات کے تحفّظ کی خاطر وزارتِ عظمیٰ پر بیٹھنے کی اتنی جلدی ہے کہ اگر یہ کام ذرا سا بھی موخر یا معطّل کیا گیا تو گویا عوام کو ناقابلِ تلافی نقصان سہنا پڑ جائے گا۔حیرت ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو عوام کا مفاد عزیز ہے، ہر ایم این اے اور ہر ایم پی اے عوام کی فلاح کے لیے ووٹ مانگتا ہے، کسی بھی سیاست دان سے پوچھ کر دیکھ لیں کہ سیاست میں کیوں آئے؟ جواب یہی ہو گا کہ ہم سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں، مگر عوام نے ہر سیاسی جماعت کا دورِ اقتدار دیکھ لیا، ہر دورِ حکومت میں عوام ہی کو درد و الم سہنا پڑا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ عوام کو ہمیشہ دھوکا دیا گیا ” عوامی مفادات “ کے نام پر جو سیاسی جماعت بھی برسرِ اقتدار آئی، اسی نے عوام کے قلوب و اذہان میں سراسیمگی اور وحشت گھول دی۔پاکستان کے بائیس کروڑ عوام نے جس سیاسی جماعت کو بھی اپنی آرزوؤں کا محور اور خواہشوں کا مرکز بنایا، اسی نے نے دل کی دھڑکنوں کا خون کیا، جس شخص پر بھی پاکستانیوں نے مَحبّتیں نچھاور کیں، اسی نے تیور بدل کر گریے اور نوحے کی ” سوغات “ سے لوگوں کو آنکھوں کو لاد دیا۔ہمارے سیاسی مدبّرین کو اقتدار میں آنے کی اتنی جلدی ہے کہ جیل بھرو تحریک تک شروع کر چکے ہیں، اس تحریک کے شروع ہونے سے قبل ہی اس کی ناکامی کے آثار واضح دِکھائی دے رہے تھے کہ بھوک کے مارے جو لوگ اپنے پیٹ بھرنے میں ناکام ہیں وہ اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کی بجائے، جیل کیسے بھر پائیں گے؟ احساسِ زیاں کی کسی ادنیٰ سی بھی رمق سے عاری یہ تمام سیاسی جماعتیں عوام کی مفلوک الحالی کی ذمہ دار ہیں۔معاشیات کے ماہر شاہد حَسن صدیقی کے مطابق بھی مخدوش اور مدقوق معاشی بحران کا ذمہ دار وہ اشرافیہ طبقہ ہے جو کرپشن کر کے ناجائز مراعات حاصل کرتا ہے، یہ طبقہ ء اشرافیہ قرضے معاف کروا کر مُلک کو معاشی بحران سے دوچار کرتا ہے اور پھر آئی ایم ایف کا بہانہ بنا کر ” مشکل فیصلوں “ کے نام پر سارا بوجھ عوام الناس پر ڈالتا ہے۔اسی ہفتے آئی ایم ایف نے شرحِ سود بڑھانے کی نئی شرط مسلّط کی، جسے حکومت نے منظور کر کے شرح سود دو فی صد بڑھا دیا ہے۔
سَر پھری تلاطم خیز سیاسی موجوں نے غریب ہی نہیں، متوسط طبقے کے چہروں کی رعنائی اور زیبائی کو بھی کجلا کر رکھ دیا ہے۔مُلک کے بادبانوں اور کھیون ہاروں کی ” سیاسی فکر “ اتنی اپاہج اور مفلوج ہو چکی ہے کہ ایک طرف دل کے عارضے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے تو دوسری سمت ٹانگ پر چڑھایا گیا پلستر عوام کے ارمانوں کا مذاق اڑانے بلکہ آنکھوں میں دھول جھونکنے سے بھی باز نہیں آ رہا۔
پاکستانی سیاست دانوں نے ” سیاست “ کو جس انداز میں پروان چڑھایا ہے، وہ مصیبت اور آفت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔اس ساری سیاست کی بنیاد محض اتہامات و الزامات، نعروں اور دعووں پر استوار ہوئی ہے، اگر یہ لوگ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوں تو مہنگائی کے حق میں ان کی دلیلیں سُن کر آپ اَش اَش کر اٹھیں گے، یقیناً آپ ان کی غلط معاشی پالیسیوں کے متعلق وضاحتیں اور طرح طرح کی علمی موشگافیاں سنیں گے تو ورطہ ء حیرت میں غرق ہو کر رہ جائیں گے اور اگر یہی لوگ اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھیں تو پھر اسی مہنگائی کے متعلق اِن کے دلوں میں موجزن درد بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، پھر معاشی پالیسیوں میں اِنھیں ہر وہ خرابی نظر آنے لگتی ہے جو اقتدار کے وقت ان کی آنکھوں سے بالکل اوجھل تھیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کے پاس معاشی مسائل کا حل، آئی ایم ایف کے سامنے گردن جھکا کر کشکول آگے بڑھانے سوا اور کچھ ہے ہی نہیں۔پاکستان کا ہر عام شخص آج معاشی مسائل کے بھنور میں پھنسا ہے، جب کہ کوئی ایک بھی سیاست دان ایسا نہیں ہے جو خود کسی ایک ہی معاشی مسئلے میں مبتلا ہو، یہ سیاست دان کیا جانیں کہ معاشیات کے روگ کس طرح آنکھوں میں زردی اتار چھوڑتے ہیں؟
صرف بیس پچیس سال قبل کے اوراقِ گذشتہ کو پھرول کر دیکھ لیں، جب صبحیں دل پذیر ہوتی تھیں اور شامیں خوش گوار، جب کسی بھی گھر اور خاندان کے معاشی مسائل اتنے ہٹّے کٹّے نہیں ہُوا کرتے تھے۔
محمد رفیع سودا نے کیا ہی عمدہ شعر کہا ہے!
فکرِ معاش، عشقِ بُتاں، یادِ رفتگاں
اِس زندگی میں اب کوئی کیا کیا، کِیا کرے