کیا امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک غیر اللہ کا ذبیحہ حلال تھا ؟‘‘
پہلے آسان الفاظ میں مسئلہ سمجھیں، قرآن مجید کی دو آیات ہیں :
پہلی آیت :
’’(اور تمہارے لیے وہ ذبیحہ بھی حرام ہے) جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔‘‘ (المائدة : ٣)
دوسری آیت :
’’اور اہلِ کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال قرار دے دیا گیا ہے۔‘‘ (المائده : ٦)
اب مسئلہ یہ ہے کہ پہلی آیت میں غیر اللہ کا ذبیحہ حرام قرار دیا گیا اور دوسری آیت میں اہل کتاب کے کھانے کو مطلقا حلال کہا گیا ہے جبکہ ان کے کھانوں کے متعلق یا تو ہمیں علم نہیں ہوتا یا ان کے اکثر کھانے غیر اللہ کے نام پر ہی ہوتے ہیں، پھر اس دوسری آیت کا کیا مطلب ہوا؟
اس کے متعلق علمائے کرام میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے ہی اختلاف تھا ۔
⇚پہلی رائے یہ ہے کہ اللہ تعالی نے چونکہ غیر اللہ کے لیے ذبح شدہ چیز کو حرام کہا ہے اس لیے اہل کتاب کے ذبائح میں بھی فرق کیا جائے گا، دیکھا جائے گا صرف جو وہ اللہ تعالی کے نام پر ذبح کریں گے وہ حلال ہو گا باقی حرام ۔
جمہور اہل علم کی یہی رائے ہے اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت یہی ہے جیسا کہ امام رحمہ اللہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
نہیں، اسے مت کھاؤ، کیوں کہ اس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہے، اس کے علاوہ ان کا ذبیحہ کھا لو۔ اللہ تعالی نے ان کے صرف اسی ذبیحے کو حلال کیا ہے جس پر اللہ تعالی کا نام لیا گیا ہو، اللہ تعالی فرماتے ہیں : ’’اور جس چیز پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، اسے مت کھاؤ کیونکہ یہ گناہ کی بات ہے۔‘‘ نیز فرمایا : ’’(اور وہ بھی حرام ہے) جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔‘‘ تو ہر وہ چیز جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کی گئی ہو وہ حرام ہے۔ (أحكام أهل الملل والردة للخلال، ص : ٣٧١)
صحابہ کرام میں یہ موقف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا(مصنف ابن ابی شیبہ : ٢٤٨٥٦ وسنده ضعیف)، اور سیدنا عبد اللہ بن عمر (رواه القاضي إسماعيل كما ذكر ابن القيم وسنده صحیح) سے مروی ہے ۔
جبکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے تفصیل مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اگر آپ کسی کتابی کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے سن لیں تو نہ کھائیں اور اگر آپ نے اس کے منہ سے نہ سنا ہو تو کھا لیں۔ (التاريخ الکبیر للبخاری : ١٣١٩ بسند لا بأس به)
⇚دوسری رائے یہ ہے کہ اہل کتاب کے متعلق جب معلوم ہے کہ وہ اللہ کے نام کی بجائے، عیسی و مریم علیہما السلام، عزیر علیہ السلام یا زہرہ ستارے وغیرہ کے نام پر ذبح کرتے ہیں، اس کے باوجود اللہ تعالی نے بنا کسی فرق کے ان کے ذبیحے کو حلال قرار دیا ہے تو یہ ایک استثنائی صورت ہے لہذا اہل کتاب اگر غیر اللہ کے نام پر بھی ذبح کریں وہ حلال ہو گا۔
مزید ان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہے : ’’اور جس پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا اسے مت کھاؤ۔‘‘ (الأنعام : ١٢١) جس طرح اہل کتاب کو یہاں استثناء حاصل ہے ان کے ذبیحے پر “بسم اللہ واللہ اکبر” نہ بھی کہا گیا ہو وہ حلال ہے اسی طرح “غیر اللہ” کے نام پر ذبح کیے گئے کو بھی استثناء حاصل ہے۔ اور یہ رائے صحابہ میں سے، سیدنا ابو الدرداء (رواه القاضي إسماعيل كما ذكره ابن القيم وسنده حسن) ، سیدنا عبادہ بن صامت اور تابعین میں سے امام مکحول، جبیر بن نفیر اور امام عطاء بن ابی رباح سے مروی ہے ۔ (أحكام أهل الذمة : ١/ ٣٥٤)
اور اسی میں امام احمد رحمہ اللہ سے ایک روایت مروی ہے کہ جب ان سے اہل کتاب کے ذبیحے کے تناظر میں زہرہ ستارے کے لے ذبح شدہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے اسے حرام کہنے کی بجائے محض مکروہ یا ناپسندیدہ کہا ۔ (مسائل عبد الله، ص : ٣٦٦)
اس مسئلے کے متعلق علمائے حنابلہ نے مفصل بحث کی ہے، امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’جب اہل کتاب اپنے ذبیحے پر غیر اللہ کا نام لیں، جیسے زہرہ ستارے یا مسیح علیہ السلام وغیرھما کا نام لیں تو کیا اسے بھی ان ذبائح کے حکم میں رکھا جائے گا جن پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا ہے یا اس پر قطعی طور پر حرمت کا حکم لگے گا؟ اس کے متعلق امام احمد رحمہ اللہ سے دو روایات مروی ہیں اور صحیح ترین روایت یہی ہے کہ یہ بھی حرام ہے۔‘‘ (أحكام أهل الذمة، ص : ١و ٥١٥)
علامہ ابو البرکات حنبلی فرماتے ہیں:
اگر اہل کتاب اپنے ذبیحے پر غیر اللہ کا نام لیں تو اس کے متعلق امام احمد سے دو روایات منصوص ہیں اور میرے نزدیک تحریم والی روایت زیادہ صحیح ہے۔ (ایضاً)
مسئلے کی مزید تفصیل و توضیح کے لیے دیکھیے؛ (احکام أهل الذمة لابن القيم : ١/ ٣٥١ – ٣٦٠)
اب یہ مسئلہ کتنا سادہ و آسان ہے، دونوں طرف صحابہ و تابعین موجود ہیں، دلائل بھی دونوں کے لیے محتمل ہیں ۔ لیکن بعض لوگ جنہوں نے بعض ’’مفکرین‘‘ کو اپنے امام بنا رکھا ہے، بے چارے محض دو چار عبارات بنا سیاق و مسئلہ سمجھے اٹھائے پھرتے ہیں، لیکن شاید قصور ان کا نہیں، جب بندہ علماء کی باقاعدہ دشمنی پر اتر آئے تو یوں ہی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا پھرتا ہے، سادہ اور آسان سا مسئلہ بھی اس کے پلے نہیں پڑتا، اس سے قبل انہی کی طرف سے امام احمد رحمہ اللہ پر استمداد بغیر اللہ کا الزام عائد کیا گیا، جب جوابا وہی الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مرفوع حدیث اور سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے موقف پیش ہوئے تو وہی منکرین حدیث والا رویہ اپنایا گیا۔
ابھی بھی الزامات کی ایک لسٹ لگائی گئی ہے ، لیکن ترتیب میں چونکہ سب سے پہلے غیر اللہ کے ذبیحے کا مسئلہ ہی تھا اس لیے ہم نے بطورِ مثال اسی پر اکتفا کرتے ہوئے مسئلہ سمجھانے کی کوشش کی ہے، عقل مند کے لیے ان کی حقیقت جاننے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ و اللہ الموفق۔

حافظ محمد طاھر