غربیوں سے ہمدردی؟!

اگرچہ مشکلات بہت ہیں، اور حالات بہت کھٹن ہیں، اور ان مواقع پر اہل خیر اور جنہیں اللہ تعالی نے نعمتوں سے مالا مال کیا ہوتا ہے، ان کا بھی امتحان ہوتا ہے کہ وہ کس قدر اپنے ارد گرد لوگوں کا خیال رکھتے ہیں۔
لیکن حالات کی تنگی کی بنیاد پر خود کشی، اور پیٹ پالنے کے لیے بدکاری جیسی عجیب و غریب باتیں یہ بالکل درست رویہ نہیں ہے۔
آج سے پہلے دنیا پر کبھی قحط نہیں آیا؟ مہنگائی نہیں ہوئی، حالات کٹھن نہیں ہوئے ہوں گے؟
کتنے لوگوں نے خود کشیاں کیں؟ اور کتنی پاکباز خواتین تھیں جنہوں نے اس سبب بدکاری شروع کردی؟
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ہم لوگوں کو بھوک اور تنگی معاش کے ذریعے آزمائیں گے…. وہاں پر اس قسم کی کوئی بیہودہ گنجائش بھی ہے کہ کوئی خود کشی کرلے یا عزت بیچنا شروع کردے؟
کیا خود کشی کرنا صرف امیر لوگوں کے لیے گناہ ہے؟ اور بدکاری کی مذمت و کراہت صرف اہل ثروت کے ساتھ خاص ہے؟
غربت کا ذکر کرکے جب ہم خود کشی اور بدکاری کا ذکر کرتے ہیں، تو اس کا صاف مطلب ہے کہ غریب کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بالکل صاف اور صریح جھوٹ ہے۔
یہ غریبوں کے ساتھ ہمدردی ہے یا ان کی توہین اور انہیں ڈی ٹریک کرنے کی ایک (لاشعوری) کوشش؟
جو واقعتا اس قدر مجبور ہے کہ وہ اس حد تک پہنچ گیا ہے، اسے ان کبیرہ گناہوں کی بجائے آزمائش سے نکلنے کے لیے لاکھوں کی نوکری نہیں، بلکہ چند ہزار روپے کی نوکری/ مزدوری بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ کیا ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ معاشرے میں اتنی گنجائش بھی باقی نہیں رہی؟ بالکل غلط!
جو کہتا ہے کہ میں غربت کے سبب خود کشی کرتا ہوں یا بدکاری، اسے صرف مالی تعاون نہیں، بلکہ نفسیاتی طور پر بھی بہت ساری اصلاح اور تعاون کی ضرورت ہے…!!
اس فکر اور رویے کی حوصلہ افزائی نہیں، بلکہ حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

#خیال_خاطر