اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جہاں ہر پیغمبر کو کتاب دی ہے اسی طرح ہر پیغمبر اور ہر نبی کو حدیث بھی عطا کی ہے.
” آدم علیہ السلام جنت سے اتارے جاتے ہیں، اس وقت کتاب ہدایت کے بھیجنے کا وعدہ کیا جاتا ہے، گویا ابھی تک کتاب نہیں آئی لیکن اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام سے باتیں کرتا تھا، حتی کہ اس کتاب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو چند کلمات بھی سکھائے تھے جن کے ذریعے سے ان کی توبہ قبول ہوئی، لہٰذا ثابت ہوا کہ کتاب اللہ کے علاوہ بھی آدم علیہ السلام پر وحی آتی تھی… موسی علیہ السلام فرعون کو تبلیغ کرتے ہیں، جادوگروں سے مقابلہ ہوتا ہے…پھر موسی علیہ السلام وہاں سے ہجرت کرتے ہیں، فرعون غرق ہوجاتا ہے، موسی علیہ السلام وادی سینا تشریف لے آتے ہیں، پھر اس موقع پر ان کو کتاب دی جاتی ہے…غرض یہ کہ اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو کہ قرآن میں مذکور ہیں…انصاف سے بتائیے کیا یہ سب باتیں اس کتاب الہی میں موجود تھیں جو موسی علیہ السلام کو دی گئی تھی.

( تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں : تفہیم اسلام از مولانا مسعود احمد صاحب بی ایس سی، ص 18 تا 22).
اسی طرح سرکارِ دوعالَم نبی مہرباں صلی الله علیه وسلم کو بھی قرآن پاک کے مجمل مقامات کی توضیح اور دیگر شرعی مقاصد کے لیے حدیث مبارکہ سے نوازا گیا. قرآن مجید میں حدیثِ طیبہ کو مختلف ناموں سے موسوم کیا گیا ہے جو کہ چند مندرجہ ذیل ہیں :
1 : حدیث. جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :

وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ (التحریم : 3).

ترجمہ : اور جب نبی نے اپنی کسی بیوی سے پوشیدہ طور پر کوئی بات کہی، پھر جب اس (بیوی) نے اس بات کی خبر دے دی اور اللہ نے اس (نبی) کو اس کی اطلاع کر دی تو اس (نبی) نے (اس بیوی کو) اس میں سے کچھ بات جتلائی اور کچھ سے اعراض کیا،پھر جب اس (نبیـ) نے اسے یہ (راز فاش کرنے کی) بات بتائی تو اس نے کہا تجھے یہ کس نے بتایا؟ کہا مجھے اس نے بتایا جو سب کچھ جاننے والا، ہر چیز سے باخبر ہے ۔
2 : الذکر. فرمان باری تعالیٰ ہے :

وَاَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكَ الذِّكۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيۡهِمۡ وَلَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُوۡنَ‏

ترجمہ : اور ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وضاحت کے ساتھ بتائیں کہ ان کی طرف جو نازل کیا گیا اور تاکہ وہ غورو فکر کریں۔( النحل : 44).
3 : حکمت. فرمان باری تعالیٰ ہے :

وَاَنْزَلَ اللّـٰهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْـمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللّـٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا (النساء : 113).

ترجمہ : اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تجھے وہ باتیں سکھائی ہیں جو تو نہ جانتا تھا، اور اللہ کا تجھ پر بہت بڑا فضل ہے.
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

“سمعتُ مَنْ أرْضى من أهل العلم بالقُرَآن يقول: الحكمة سنة رسول الله.

ترجمہ : جن اہلِ علم کے قرآن فہمی سے میں راضی ہوں، میں نے ان سے سنا ہے کہ ” حکمت” سے مراد رسول اللہ صلی الله علیه و سلم کی حدیث ہے.
4 : بیان. اس کے متعلق فرمان باری تعالیٰ ہے :

لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ* إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ* فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ* ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ} (القيامة :16ـ19).

ترجمہ : تو اس کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دے، تاکہ اسے جلدی حاصل کرلے. بلاشبہ اس کو جمع کرنا اور (آپ کا) اس کو پڑھنا ہمارے ذمے ہے. تو جب ہم اس کو پڑھیں تو تو اس کے پڑھنے کی پیروی کر. پھر بلاشبہ اسے واضح کرنا ہمارے ذمے ہے.
5 : صحیفہ. فرمان باری تعالیٰ ہے :

رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةًۙ فِیْهَا كُتُبٌ قَیِّمَةٌؕ

ترجمہ:(یعنی)اللہ کا رسول جو پاک صحیفوں کی تلاوت فرماتا ہے ۔ان صحیفوں میں سیدھی باتیں لکھی ہوئی ہیں ۔ ( البينة : 2’3).
ملاحظہ : کسی چیز کو کئی ایک ناموں سے موسوم کیا جانا اس کی عظمت و اہمیت کی دلیل ہوا کرتی ہے لہٰذا حدیث کے متعدد اسماء سے اس کی عظمت واہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے.
حدیثِ نبوی کے لیے حدیث کا لفظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد بار استعمال کیا ہے، ان مقامات میں سے بطورِ نمونہ دو پیشِ خدمت ہیں :

1 : يُوشِكُ الرَّجُلُ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يُحَدَّثُ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِي فَيَقُولُ : بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلّ… ( سنن ابن ماجه : 12).[صحيح].

ترجمہ : قریب ہے کہ ایک آدمی اپنے پلنگ پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو، اسے میری حدیث میں سے کوئی حدیث بیان کی جائے تو وہ کہے : ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کافی ہے.

2 : مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ، فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ.

ترجمہ : جس نے مجھ سے کوئی حدیث بیان کی اور اسے پتا بھی ہے کہ درحقیقت وہ جھوٹ ہے تو وہ جھوٹوں میں سے ایک (جھوٹا) ہے. ( مقدمہ صحیح مسلم : 7).
حدیث کی لغوی و اصلاحی تعریف :
لغوی تعریف :
حدیث واحد کا صیغہ ہے جس کی جمع احادیث خلافِ قیاس آتی ہے.( تيسير مصطلح الحديث ،ص : 13، از طحّان). جس کا مطلب ، بات، کلام، گفتگو، خبر، روایت، کہانی اور مضمون آتا ہے. ( القاموس الوحيد ، ص : 317).
ایسے ہی یہ لفظ ” نئی چیز، بیان اور ذکر کے معنوں میں بھی مستعمل ہے. ( جامع علمی اردو لغت از وارث سرہندی ، ص : 643).
اصطلاحی تعریف : جو رسول اللہ صلی الله علیه و سلم سے منقول ہو، خواہ قول یا فعل یا تقریر ہو، جبلّی یا اخلاقی صفات ہوں، یا قبل از نبوت یا بعد کی سیرت مبارکہ ہو. بعض نے حدیث کے مفہوم کو مزید وسعت دے کر اس میں آنحضرت صلی الله علیه و سلم کے عہد کی تاریخ کو بھی شامل کیا ہے. اس وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کا نام ” الجامع الصحيح المسند المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم و سننه و أيامه” رکھا. ( علوم الحدیث از ڈاکٹر عبد الرؤوف ظفر، ص : 27).
ذیل میں اس تعریف کی دلائل کی روشنی میں وضاحت کی جاتی ہے :
قولی حدیث. یعنی وہ حدیث جو نبی کریم صلی الله علیه و سلم کے قول پر مبنی ہو.مثال :

يُوشِكُ الرَّجُلُ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يُحَدَّثُ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِي فَيَقُولُ : بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلّ… ( سنن ابن ماجه : 12).[صحيح].

ترجمہ : قریب ہے کہ ایک آدمی اپنے پلنگ پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو، اسے میری حدیث میں سے کوئی حدیث بیان کی جائے تو وہ کہے : ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کافی ہے.
فعلی حدیث. یعنی وہ حدیث جو رسول اللہ صلی الله علیه و سلم کے عمل پر مبنی ہو.
مثال : جناب عبد الله بن ابی اوفی رضی الله عنه کہتے ہیں:

” غَزَوْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ – أَوْ سِتًّا – كُنَّا نَأْكُلُ مَعَهُ الْجَرَادَ “.( صحیح بخاری : 5557).

ترجمہ : ہم نے نهی صلی الله علیه و سلم کے ساتھ چھ یا سات لڑائیوں میں حصّہ لیا. ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹِڈی کھایا کرتے تھے.
تقریری حدیث. یعنی ہر وہ قول یا فعل جو نبی صلی الله علیه و سلم کی موجودگی میں کیا یا کیا گیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نکیر نہ فرمائی ہو اسے تقریری حدیث سے موسوم کیا جاتا ہے. اور بعض اہلِ علم نے تقریرات میں ان امور کو بھی شامل کیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تو پیش نہیں آئے مگر شریعت ان کے بارے میں خاموش ہے.
اس مسئلے کی تفہیم کے لیے دو مثالیں پیشِ خدمت ہیں :
1 : قيس بن عمرو بن سہل انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیه و سلم نے ایک آدمی کو فجر کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے دیکھا تو فرمایا :

صَلَاةُ الصُّبْحِ رَكْعَتَانِ “. فَقَالَ الرَّجُلُ : إِنِّي لَمْ أَكُنْ صَلَّيْتُ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، فَصَلَّيْتُهُمَا الْآنَ. فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ( سنن ابو داؤد : 1269) صحیح.

ترجمہ : صبح کی نماز تو دو رکعت ہے. اس آدمی نے جواب دیا : میں نے فرض نماز سے پہلے کی دو رکعتیں نہیں پڑھی تھیں، لہٰذا اب پڑھ لی ہیں. تو رسول اللہ صلی الله علیه و سلم ( یہ جواب سن کر) خاموش ہوگئے.
2 : جناب جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

كُنَّا نَعْزِلُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْقُرْآنُ يَنْزِلُ. ( صحیح بخاری : 5208)

ترجمہ : ہم نبی کریم صلی الله علیه و سلم کے زمانے میں عزل کیا کرتے تھے جب کہ قرآن بھی نازل ہوا کرتا تھا.

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جہاں ہر پیغمبر کو کتاب دی ہے اسی طرح ہر پیغمبر اور ہر نبی کو حدیث بھی عطا کی ہے.
” آدم علیہ السلام جنت سے اتارے جاتے ہیں، اس وقت کتاب ہدایت کے بھیجنے کا وعدہ کیا جاتا ہے، گویا ابھی تک کتاب نہیں آئی لیکن اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام سے باتیں کرتا تھا، حتی کہ اس کتاب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو چند کلمات بھی سکھائے تھے جن کے ذریعے سے ان کی توبہ قبول ہوئی، لہٰذا ثابت ہوا کہ کتاب اللہ کے علاوہ بھی آدم علیہ السلام پر وحی آتی تھی… موسی علیہ السلام فرعون کو تبلیغ کرتے ہیں، جادوگروں سے مقابلہ ہوتا ہے…پھر موسی علیہ السلام وہاں سے ہجرت کرتے ہیں، فرعون غرق ہوجاتا ہے، موسی
علیہ السلام وادی سینا تشریف لے آتے ہیں، پھر اس موقع پر ان کو کتاب دی جاتی ہے…غرض یہ کہ اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو کہ قرآن میں مذکور ہیں…انصاف سے بتائیے کیا یہ سب باتیں اس کتاب الہی میں موجود تھیں جو موسی علیہ السلام کو دی گئی تھی. ( تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں : تفہیم اسلام از مولانا مسعود احمد صاحب بی ایس سی، ص 18 تا 22). جاری

حدیث ہر پیغمبر کو دی گئی (2)

حافظ عبد العزيز آزاد