حادثے، زندگی کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیا کرتے ہیں، جب کسی کا پیارا شخص کسی حادثے کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار جائے تو آنِ واحد میں ہنستی، کھیلتی اور مسکراتی زندگانی کی گہما گہمی اس کے لیے دائمی روگ میں ڈھل جاتی ہے۔ہر روز اخبارات حادثوں کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں، ایسے ایسے جان کاہ حادثات رونما ہو جاتے ہیں کہ انسان کی روح تک میں درد کے بھالے کُھب کر رہ جاتے ہیں۔کسی حرماں نصیب ماں کا اکلوتا بیٹا، یا آلام کی ماری پانچ سات بہنوں کا اکلوتا بھائی جب کسی حادثے کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے تو آنسوؤں سے لدے دھندلکے اُن کی زیست میں حلول کر جاتے ہیں، پھر اُن کے آنگن میں درد ہی درد اُگتے جاتے چلے جاتے ہیں۔اسلم کولسری کے اشعار ہیں۔
سورج سرِ مژگاں ہے، اندھیرے نہیں جاتے
ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہیں جاتے
جو پھول سجانا تھے مجھے تیری جبیں پر
بھیگی ہوئی مٹی پہ بکھیرے نہیں جاتے
وہاڑی کے قرب میں ٹریفک حادثہ ہُوا اور ایک ہی گھر کے چار افراد موت کی بھینٹ چڑھ گئے۔چند ہفتے قبل ہی لسبیلہ کے روح فرسا حادثے میں ایک مسافر کوچ ” کھائی “ میں جا گری، خوف ناک آگ بھڑک اٹھنے سے، اس دل دوز حادثے میں بھی ایک خاتون اس کی اکلوتی بیٹی اور دو بیٹے سمیت ایک ہی خاندان کے چار افراد موت کا نوالہ بن گئے۔ذرا چشم تصور میں، دلوں کو چیر دینے والا وہ منظر لائیے جب ایک ہی گھر سے چار جنازے بہ یک وقت اٹھے ہوں گے تو وہاں کتنا کہرام مچ گیا ہو گا؟ کتنی ہی آنکھوں میں آنسوؤں نے اضطراب اور بے کلی بپا کر دی ہو گی، کیفی اعظمی کا شعر ہے۔
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
ٹریفک حادثات کے متعلق ایک تحقیقی رپورٹ کے اعداد و شمار بڑے ہی مہیب ہیں کہ 2018 ء سے اب تک پاکستان میں اوسطاً 21 افراد روزانہ سڑک حادثات میں جاں بہ حق ہو رہے ہیں۔گذشتہ 5 سالوں کے دوران مجموعی طور پر 40 ہزار 132 ہلاکتیں ہو چکیں اور 23 لاکھ کے قریب افراد زخمی ہوئے۔یہ صورتِ حال بڑی اندوہ ناک ہے کہ ہمارے مُلک میں ہر روز تقریبآ ایک ہزار چھوٹے بڑے حادثات ہو رہے ہیں۔مالی نقصان جو گذشتہ 5 سال کے عرصے میں ہونے والے حادثات میں ہُوا وہ نہ صرف قلب و نظر میں بھونچال پیدا کرنے کے لیے کافی ہے بلکہ ہم سب کے لیے لمحہ ء فکریہ بھی ہے، 171 ارب روپے مالیت کی 3 لاکھ 5 ہزار گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں تباہ ہوئیں۔سب سے زیادہ حادثات پنجاب میں ہوئے جن کی تعداد 13 لاکھ ہے۔سندھ میں 3 لاکھ، خیبرپختونخواہ میں ڈھائی لاکھ اور بلوچستان میں ستر ہزار حادثات نے لاکھوں گھرانوں میں اتنی تلخیاں جھونک دی ہیں کہ وہ لوگ اب تبسّم اور مسکراہٹ تک فراموش کر چکے ہیں۔احسن مارہروی نے کیا خوب کہا تھا۔
مجھے خبر نہیں غم کیا ہے اور خوشی کیا ہے
یہ زندگی کی ہے صورت تو زندگی کیا ہے
اب ذرا کلیجے پر ہاتھ دھر کر یہ بھی پڑھ لیجیے کہ ٹریفک حادثات کے اعدادو شمار کے مطابق ایشیا میں پاکستان پہلے نمبر پر موجود ہے، جب کہ دنیا بھر میں پاکستان کا 48 واں نمبر ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹریفک حادثات میں اموات کی تعداد دہشت گردی میں مرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حادثات انسانی غلطیوں ہی کا شاخسانہ ہوتے ہیں، ہمارا نصابِ تعلیم ٹریفک قوانین سے بالکل تہی اور عاری ہے، فقط آٹھویں جماعت میں ایک سبق شامل کیا گیا ہے، وہ بھی انگریزی زبان میں ہے، یہی وجہ ہے کہ من حیث القوم ہم ان قوانین کا شعور ہی نہیں رکھتے۔یہاں جو لوگ ٹریفک قوانین سے واقفیت رکھتے ہیں وہ بھی ان پر عمل کرنے سے گریز پا ہی رہتے ہیں، ون وے کی خلاف ورزی، کم عمری میں ڈرائیونگ، دورانِ ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال اور تیز رفتاری ان مہلک اور موذی حادثات کے اسباب ہیں، پتا نہیں ہمیں اتنی جلدی کس بات کی ہوتی ہے کہ اپنی زندگیوں سے بھی بے پروا کر اپنی گاڑیوں کو دوڑاتے ہیں۔
کوئی بھی ایک انسان پوری دنیا اور کائنات کی مثل ہوتا ہے اور جب وہ انسان کسی حادثے کا شکار ہو کر لقمہ ء اجل بن جاتا ہے اس کے چاہنے والوں کی دنیا ہی اجڑ جاتی ہے۔اگر ہم غور کریں تو حادثے ہمیں بہت کچھ شعور بھی دے جاتے، ایک ایسی آگہی جو ٹریفک قوانین پر عمل کرنے کی زبردست تحریک پیدا کرتی ہے، کاش! کہ ہم ان حادثات سے ہی کچھ سبق سیکھ لیں، عبد القدیر ساحل کا شعر ہے۔
حادثے ہم کو جگانے کے لیے آتے ہیں
کتنے انجان ہیں ہم، یہ نہ سمجھ پاتے ہیں