موسم حج ختم ہوتے ہی کچھ اہلِ بدعت اور ٹھگ لوگ حاجیوں کو ٹھگنے لگ جاتے ہیں، انہیں بدعت میں بھی ملوث کرتے ہیں اور ان کا مال بھی ضائع کرواتے ہیں.

طریقہ کار ان کا یہ ہوتا ہے کہ یہ حاجیوں کی قیام گاہ پر پہنچتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ آپ نے اتنی موٹی رقم لگا کر فریضہء حج ادا کیا ہے، ممکن ہے غیر شعوری طور پر آپ سے کچھ غلطیاں سرزد ہو گئی ہوں لہذٰا احتیاط کے طور پر آپ دَم یا فدیہ دے دیجئیے تاکہ وہ حج میں ہونے والی غلطیوں کا کفارہ بن جائے، اور دم کی رقم ہمارے پاس جمع کرکے آپ بے فکر ہوکر اپنے ملک جائیں، ہمارے پاس دم کی ادائیگی کا بندوبست ہے، لہذٰا حاجی جو بیچارہ لاکھوں لگا کر حج کرنے آیا ہے، ڈر جاتا ہے کہ کہیں میرا حج بیکار نہ ہو جائے، اس لیے وہ دم کی رقم ان کو دے دیتا ہے کہ لیجیئے یہ ہماری طرف سے آپ دَم دے دینا یا فدیہ ادا کر دینا۔

معزز و مکرم حجاج کرام! اللہ آپ کا حج قبول فرمائے، شریعت میں حج کے بعد احتیاط کے طور پر اس طرح کے دم یا فدیہ کا کوئی ثبوت نہیں ہے، ہاں اگر واقعی آپ سے کوئی ایسی غلطی ہوئی ہو جس میں دَم واجب ہوتا ہے، تو وہ غلطی آپ کے علم میں ہوگی، تو بیشک آپ دَم دیں گے، لیکن محض احتیاط، شک اور وہم و گمان کی بنیاد پر کہ شاید کوئی غلطی ہو گئی ہو، اس لیے احتیاطاً ادا کر دیں، اس کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں نہیں ملتا۔

میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ آخری وقت میں حجاج سے پیسہ کمانے کے لیے یہ بدعت ایجاد کی گئی ہے اور اس میں وہاں کا ایک قدیم ادارہ مدرسہ صولتیہ پیش پیش ہے، انہوں نے اسے اپنی کمائی کا ذریعہ اور دھندہ بنا رکھا ہے۔ ہند سے لیکر سعودی عرب تک ان کے ایجنٹوں کا جال بچھا ہوا ہے جو زیادہ سے زیادہ حجاج کو اپنے اس دامِ فریب میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ بطورِ احتیاط دم یا فدیہ ادا کر دیجیئے، لہذٰا مکہ و اطراف میں رہائش پذیر حجاج کی ایک ایک بلڈنگ سے وہ ایک اچھی خاصی موٹی رقم اور ہزاروں ریال کا کاروبار کرکے نکلتے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے روزوں میں ہونے والی کوتاہیوں کے کفارہ کے طور پر صدقۃ الفطر فرض قرار دیا ہے، اسی طرح یہ بھی ہے، اس سے بھی حج کی کوتاہیاں معاف ہو جائیں گی، تو عرض ہے کہ زکوٰۃ الفطر نکالنے کا حکم اور ثبوت تو احادیث صحیحہ سے ملتا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مکلف ہر روزہ دار کو بنایا ہے کہ وہ صدقۃ الفطر ادا کرے، کیا ہر حاجی کو بھی اللہ کے رسول نے فدیہ یا دَم نکالنے کا مکلف بنایا ہے؟

یہ سارا گورکھ دھندہ در اصل احتیاط والوں کا ہے، وہ جمعہ کے بعد ظہر احتیاطی پڑھتے ہیں، سحری کھانا پینا احتیاطاً جلدی روک دیتے ہیں، افطار احتیاطاً اللہ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ وقت سے تاخیر سے کرتے ہیں، اور حاجیوں سے احتیاط کے نام پر دَم یا فدیہ کی موٹی موٹی رقمیں وصول کرتے ہیں۔

تعجب اور افسوس تب ہوا جب کچھ اپنے بھی ان کی اس سازش کا شعوری یا غیر شعوری طور پر حصہ بن گئے اور حجاج کو دمِ احتیاطی اور فدیہ کی ادائیگی پر ابھارنے لگے۔
اللہ سب کو صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین

(کمال الدین سنابلی ،دہلی)