عجیب حوصلوں سے سرشار اور شاداب ہیں یہ فلسطین کے لوگ بھی، ایک صدی بِیت چلی مگر یہ تھکے نہیں، جھکے نہیں، ہارے نہیں، انھوں نے اپنے عزم کی تمکنت اور وقار کو کبھی مجروح نہیں ہونے دیا، ہر طرح کی صعوبتوں اور تلخیوں کے باوجود بھی ان کے تخیّل میں عزم و ہمت کے گلاب کِھلے ہیں۔ اَن گنت عارضوں اور ابتلاؤں کے باوجود ان کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب نہیں ہونے پائیں، ایٹمی اسلحے سے لیس سفاک اسرائیلی فوجی درندے ان کے حوصلوں کو چٹخا تک نہیں پائے، ہمہ قسم کے ظلم و جبر کے باوجود ان کے سینوں میں سراسیمگی کی جگہ آزادی کی قندیلیں روشن ہیں، دنیا کے 57 اسلامی ممالک کی بے رخی اور عرب دنیا کی بے حسی اور سنگ دلی کے باوجود انھوں نے بے یقینی اور نا امیدی کی نحوست کو قریب تک پھٹکنے نہیں دیا۔ آج ایک بار پھر حماس کے جنوں خیز ببر شیروں نے اسرائیلی فوج پر حملہ کر کے آزادی کی لَو کو مزید مہمیز دے دی ہے۔حماس کے حریت پسند ہفتے کی صبح موٹر سائیکلوں، پیرا گلائیڈرز اور کشتیوں کا استعمال کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کے علاقے سے اسرائیلی حدود میں داخل ہوئے، حملے کے لیے غیر معمولی انداز اپناتے ہوئے حماس کے کمانڈو پیراشوٹ سے اسرائیل میں داخل ہوئے اور فائرنگ کرتے ہوئے فوجی اڈے کا رخ کیا، اسرائیلی فوج ششدر ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں حماس کے مجاہدین، دنیا کے سخت ترین حفاظتی انتظامات والی سرحد عبور کرنے میں کیسے کامیاب ہو گئے؟ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اسرائیل کی برّی فوج میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا ” مرکاوا ٹینک “ سمیت اسرائیل کی کئی گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا، فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کے انچارج کا نام میجر جنرل نمرود الونی ہے، جسے حماس نے یرغمال بنا لیا ہے۔حماس کے نوجوان کئی اسرائیلی دیہاتوں میں دندنا رہے ہیں، جو بائیڈن کہتا ہے کہ ” اسرائیل کو اپنا اور اپنے شہریوں کا تحفظ کرنے کا حق حاصل ہے “ 57 اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ کچھ تو لب کشائی کریں، یوں کب تک اندھے، بہرے اور گونگے بنے رہیں گے؟ ایک تصویر میں چار سالہ فلسطینی بچہ ایک ہاتھ سے فیڈر پکڑے دودھ پی رہا ہے جب کہ دوسرے ننھے ہاتھ میں اسرائیلی درندوں پر حملہ کرنے کے لیے ایک پتھر لیے کھڑا ہے۔ واللہ! چار سالہ بچے کے ہاتھ میں موجود یہ پتھر، 57 اسلامی کی میزائیل ٹیکنالوجی سے بھاری ہے، اے کاش! اسلامی ممالک کے سربراہ اس بچے جیسی حمیت ہی رکھتے۔شکیل اعظمی کا شعر ہے:
ہار ہو جاتی ہے جب مان لیا جاتا ہے
جیت تب ہوتی ہے جب ٹھان لیا جاتا ہے
انتہائی اذیتوں میں گِھرے فلسطین میں حماس سب سے بڑی اسلامی تنظیم ہے، جس کی بنیاد 1987ء میں شیخ احمد یاسین نے رکھی۔شہر میں حماس کے قیام کی پندرہ سال مکمل ہونے کے موقع پر ہونی والی ایک ریلی میں چالیس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی تھی، اس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شیخ احمد یاسین شہید نے کہا تھا کہ 2025 ء تک اسرائیل صفحہ ہستی سے ختم ہو جانے گا۔2025 ء نہ سہی مگر ایک نہ ایک دن اسرائیل کو ختم ہونا ہے۔2004 ء میں احمد یاسین اور ان کے بعد ان کے جانشین عبدالعزیز رنتسی کی شہادت کے بعد بھی ایک عجیب ایمان آفریں منظر اُس وقت بپا ہوا تھا جب ہزاروں افراد ان کی شہادت پر احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
آج دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت منہگائی کے گرداب میں پھنسا دی گئی ہے، پاکستان کی سیاست مخمصوں اور خرخشوں میں گِھری ہے، فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم و مقہور لوگوں کی ہم نوا بننا تو کجا، پاکستانی عوام کی خیر خواہی میں ہی تمام سیاسی جماعتیں بالکل ناکام ہو چکی ہیں، عوام کو مسائل کے بھنور سے نکال کر بھاگ جگانے کی دعوے دار تمام سیاسی جماعتوں کے زمین آسمان کے قلابے اتنے نامراد ثابت ہو چکے ہیں کہ پاکستانی لوگ مایوسی اور ناامیدی کے بھنور میں پھر کسی مسیحا کے منتظر ہیں مگر دُور دُور کسی مسیحا کی آمد کے امکانات معدوم ہیں۔حماس کی اس عظیم الشان اور ورطہ ء حیرت میں ڈال دینے والی کارروائی پر سوائے ایران کے ساری مسلم دنیا گونگے کا گُڑ کھا کر چُپ سادھے بیٹھی، سب نے ہی حماس کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے محض رسمی سے دو چار جملے ادا کر دیے ہیں، مسلم دنیا کے عظیم قائد ترکی کے طیب اردوغان نے بھی گونگلوؤں پر سے مٹی جھاڑنے کے سوا کوئی جراَت آمیز بات نہ کی، اسلامی دنیا کی کسی قسم کی ہم دردی اور تعاون کی عدم موجودگی کے باوجود حماس کا اس طرح اسرائیل پر چڑھ دوڑنا کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی، ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔حماس کا تلاطم خیز جنوں اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اگر مسلم دنیا متحد ہو جائے تو اسرائیل کی شکست اور بیت المقدس کی آزادی کوئی ناممکن نہیں ہے۔
زمانہ معترف ہے اب ہماری استقامت کا
نہ ہم سے قافلہ چُھوٹا نہ ہم نے رہ نما بدلا
رہِِ الفت میں گو ہم پر بڑا مشکل مقام آیا
نہ ہم منزل سے باز آئے نہ ہم نے راستہ بدلا
( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )