سوال: ہمیں سائنس سے مسئلہ کیا ہے؟
الجواب: کوئی مسئلہ نہیں، فقط اتنا مسئلہ ہے کہ وہ اپنی ڈومین میں نہیں رہ پاتی۔ جیسے کسی ڈاکٹر کے کلینک پر کوئی وکیل آکر بیٹھ جائے اور دوا کے نسخے بنانے لگے۔ یا کسی جج کی سیٹ پر افتخار ٹھاکر کو بٹھا دیا جائے تو جو مسئلہ ڈاکٹر اور جج کو ہوگا وہی مسئلہ ہمیں ہے۔ جیسے علماء کو ساحل عدیم، علی بھائی اور فلاں فلاں سے مسئلہ ہے۔ سائنس اپنی حدود میں رہے مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ سائنس کی حدود بتاتا ہوں :
1۔ میٹا فزکس کو عقل سے جانچنے کی ضد نہ کرے۔ اگر کرنی ہے تو اپنے طور پر لگی رہے ہم پر مسلط نہ کرے۔
2 : اخلاقیات طے کرنا سائنس کا کام نہیں ہے۔ سو، وہ ایسی حرکتوں سے باز رہے۔
3 : وحی کو چیلنج کرنے جیسی حماقت نہ کرے۔ کیوں کہ 25 سو سالہ معلوم تاریخ میں حق و باطل کی آج تک جو کشمکش ہے۔ وہ وحی اور عقل ہی کی کشمکش ہے۔ سوا کے کچھ نہیں۔ معتزلہ سے ہمارا جھگڑا کیا تھا؟ یہی اور بس ! اہل شرک سے ہمارا مسئلہ کیا تھا؟ یا مترفین سے ہمارا مسئلہ کیا تھا؟ یہی تھا اور قیامت تک رہے گا۔
4 : خیر و شر طے کرنے کے لئے سقراط سے لے کر فوکو یاما تک فلسفی تھک گئے، عقل سے اس کا تعین نہیں کر پائے۔ اس کے باوجود وہ خیر و شر متعین کرنے کی ضد کیوں کرتے ہیں؟ سائنس کیسے بتا سکتی ہے کہ خیر کسے کہنا ہے اور شر کیا ہوگا؟ خیر و شر کا پہلا سوال تھا جسے شیطان نے اٹھایا تھا اور اپنی عقل سے خیر کا تعین کیا تھا۔ پھر راندہ درگاہ ہوا
5 : حلال و حرام کا تعین وحی کا کام ہے۔ سائنس کا نہیں، لہذا کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کے لئے فقط نصوص شریعت ہی کا دراسہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں جو جدید حالات سے مطابقت کے نام پر کئی قسم کے سسٹم اسلامائز کئے جاتے ہیں، ان سب سے بھی ہمارا مسئلہ فقط یہی ہے۔ یہی مسئلہ ہمیں غامدی صاحب کے اصول فطرت سے ہے۔جس میں انہوں نے خالص عقل انسانی کو منبع حلال و حرام قرار دے دیا ہے۔ گو وہ اس کی تفصیل کرتے ہیں مگر خلاصہ بہر حال ان کا یہی ہے کہ اصول فطرت حلال و حرام طے کرتے ہیں۔

سائنس ہمیشہ سے رہی ہے۔ مگر جب تک اپنی ڈومین سے باہر نہیں نکلی کسی نے اسے کچھ نہیں کہا۔ ابن سینا اگر فقط ریاضی فزکس وغیرہ پر رہتا تو مسئلہ نہیں تھا لیکن جب ابن سینا انبیاء کے متعلق کہنے لگا کہ نبی تو فقط غریبوں کے لئے ہوتا ہے۔ بڑے اور اہل عقل کے لئے نبی نہیں ہوتا تو پھر اس کے بعد ابن سینا سے جھگڑا لازمی تھا۔ یعنی اگر یہ بھی اسلام ہے تو پھر اللہ وارث !

کسی نے فتوی نہیں لگایا کہ اسپیکر ایجاد کرنے کی بنیاد پر فلاں شخص کاپر ہوگیا یا فلاں کا میڈیکل سائنس میں فلاں کارنامہ فلاں کو کاپر بناتا ہے۔ لہذا سائنس سے ہمیں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ سائنس کے نام پر اہل مذہب اور مذہب کے مقدمے پر جھوٹ باندھے جاتے ہیں۔ جو کہ کسی طور قابل قبول نہیں۔

ابو الوفا محمد حماد اثری