گزشتہ خطبات جمعہ میں سے ایک خطبہ کی تیاری کے دوران مندرجہ ذیل آیت کریمہ سامنے آئی تو اس سے ایک دل چسپ نکتہ ذہن میں آیا. آپ بھی غور کیجئے اور محظوظ ہوں، فرمان باری تعالیٰ ہے:

(وَ قَالَ فِرۡعَوۡنُ ذَرُوۡنِیۡۤ اَقۡتُلۡ مُوۡسٰی وَ لۡیَدۡعُ رَبَّہٗ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یُّبَدِّلَ دِیۡنَکُمۡ اَوۡ اَنۡ یُّظۡہِرَ فِی الۡاَرۡضِ الۡفَسَادَ)

“اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور وہ اپنے رب کو پکار لے، بے شک میں ڈرتا ہوں کہ وہ تمھارا دین بدل دے گا، یا یہ کہ زمین میں فساد پھیلا دے گا۔”

(سورۃ المؤمن: 26)

آپ اندازہ لگائیں کہ فرعون اپنی قوم کو کہہ رہا ہے کہ مجھے خطرہ ہے کہ موسی (علیہ السلام) کہیں تمہارے دین کو بدل نہ ڈالے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دین کا نعرہ لگانے والا اور آپ کے دین کی بات کرنے والا ضروری نہیں کہ وہ واقعی آپ کے دین کو بچانا چاہتا ہے، یا وہ آپ کے دین کیلئے فکر مند ہے، بلکہ بعض لوگ اس لئے بھی دین کا نعرہ لگا رہے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں اور وہ ان مفادات کے بچاؤ کیلئے اور اپنی سیاست و اقتدار کو بچانے اور قائم رکھنے کیلئے آپ سے دین کا نام لے رہے ہوتے ہیں اور دین و مذہب کا نعرہ لگا رہے ہوتے ہیں۔

اسی طرح اگر ہم اپنے ارد گرد بعض افراد کو دیکھیں تو کتنے ہی دین بیزار لوگ مل جائیں گے جن کو دین کی ابجد کا بھی علم نہیں ہے کہتے پھرتے ہیں ان مولویوں نے دین کو بگاڑ دیا ہے۔ ہماری نظر میں دین کا جو ورژن ہے یا جو دین ہم سمجھتے ہیں وہ حالات کے مطابق ہے اور اپڈیٹڈ ہے۔ علماء نے دین کا بہت نقصان کیا ہے۔ بعض ایسے افراد بھی مارکیٹ میں موجود ہیں جو پیشہ اور منصب کے حوالے سے یا تو میڈیکل ڈاکٹر ہیں یا انجینئر ہیں یا دنیا کے کسی دوسرے شعبے سے منسلک ہیں، بس چند کتابوں کے پڑھ لینے سے دین کی تشریح کرتے نظر آتے ہیں اور اپنی چرب زبانی سے بہت بڑے مفکر بنتے ہیں جس سے عام لوگ متاثر بھی ہوتے ہیں۔

آج بھی ایسے بعض مذہبی و سیاسی راہنما اور تحریکیں موجود ہیں جو صحیح عقیدے اور سلیم منہج سے کوسوں دور ہیں لیکن امت کو دین کے نام پر گمراہ کر رہے ہیں اور بہت سے ناسمجھ لوگ ان نعروں کو دیکھ کر انہیں اپنے دین کا محافظ سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے لوگوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

 ابوالطیب محمد نصیر علوی