سوال (2268)

کھانے کے ہر نوالے کے ساتھ بسم اللہ اور الحمد للّٰہ کہنے سے بدعت لاگو آئے گی یا کوئی حرج نہیں ہے۔

جواب

یہ تو حدیث سے مسئلہ ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے سے راضی ہوتا ہے جو ایک ایک گھونٹ پانی پینے پر اور ایک ایک لقمہ کھانے پر الحمد للّٰہ کہتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

صرف کھانے کے شروع میں بسم الله کے الفاظ پڑھنا رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی مبارک سنت ہے اور رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کرنے پر ہی رب العالمین کی محبت وقربت نصیب ہو سکتی ہے اور گناہ معاف ہو سکتے ہیں
[دیکھیے سورہ آل عمران:31]
اب سوال کے مطابق اگر کوئی شخص کثرت عادت کے سبب متعدد بار کھانا کھاتے وقت بسم الله کا کلمہ پڑھ دیتا ہے اور اس کا ارادہ و نیت نہیں ہوتا یا وہ ایسا سنت سمجھ کر نہیں کرتا تو امید ہے اس عمل پر گناہ نہیں ہو گا نہ ہی بدعت کا اطلاق ہو گا۔ اور اگر وہ اس عمل کو سنت کا درجہ دے کر ایسا کرتا ہے تو تب یہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت و تعلیم سے آگے بڑھنا ہے اور یہ عمل واضح طور پر بدعت کہلائے گا۔ خیر ہمارا حسن ظن ہے کہ سائل عمدا ایسا نہیں کرتا ہے، بلکہ عادت کے طور پر ایسا کرتا ہے، جسے خوب کوشش کر کے وہ ترک کر سکتا ہے اس نیت و ارادہ کے ساتھ کہ میں نے صرف سنت رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونا ہے۔ جہاں تک بات ہے کھانا ، پھل وغیرہ کا بہت زیادہ پسند آنے اور اس کا ذائقہ اچھا لگنے پر کلمہ الحمدلله ،سبحان الله ،ماشاء الله بے ساختہ زبان سے نکل جانا تو یہ قابل تعریف عمل ہے۔
آخر پر عرض ہے کہ کھانے اور پینے کے بعد الله تعالى کی حمد بیان کرنا مستحب اور فضیلت والا عمل ہے۔
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

“إِنَّ اللَّهَ لَيَرْضَى عَنْ الْعَبْدِ أَنْ يَأْكُلَ الْأَكْلَةَ فَيَحْمَدَهُ عَلَيْهَا أَوْ يَشْرَبَ الشَّرْبَةَ فَيَحْمَدَهُ عَلَيْهَا”

بلاشبہ الله تعالى اس بندے سے بہت زیادہ خوش ہوتے ہیں کہ وہ کھانا کھاے تو اس پر الله تعالى کی حمد و تعریف کرے اور پانی پیے تو اس پر الله تعالى کی حمد وبتعریف کرے( یعنی کھانے کے بعد کی کوئی سی مسنون دعا پڑھے جس میں کلمہ حمد ہو)
[صحیح مسلم: 2734]
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

و كثير من مجتهدي السلف والخلف قد قالوا وفعلوا ما هو بدعة ولم يعلموا أنه بدعة، إما لأحاديث ضعيفة ظنوها صحيحة، وإما لآيات فهموا منها ما لم يرد منها، وإما لرأي رآه وفي المسألة نصوص لم تبلغهم، وإذا اتقى الرجل ربه ما استطاع دخل في قوله: ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا}، وفي الصحيح أن الله قال: قد فعلت.
[ابن تيمية- مجموع الفتاوى: ۱۹۱/۱۹-۱۹۲]

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ