ہم انجان راستوں پر بے تکان چلتے چلتے بہت دُور جا نکلتے ہیں، طمع اور حرص و ہوس سے پاک مَحبّتوں کو ڈھونڈتے اور تلاشتے ہم کتنی ہی بار خزاں رسیدہ پَتّوں کی مانند بے وقت اور بے مایہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔کتنی ہی بار دشتِ حیات میں یہ مشقّت کرتے کرتے وحشت سی ہونے لگتی ہے۔دُور دُور تک کہیں سے بادِ مَحبّت کا کوئی ایسا جھونکا تک آتا دِکھائی نہیں دیتا جو حیات میں نشاط کے رنگ گھول دے، پیہم یہ آبلہ پائی کرتے کرتے انسان تھک سا جاتا ہے۔لوگوں کے پھیکے رویّے ہمیں نڈھال کر ڈالتے ہیں، اپنوں کی مطلب پرستی، جان سے پیارے لوگوں کی کج ادائی، اور اعزّہ و اقربا کی بے وفائی ہمیں عمر کے اس حصّے میں لا کھڑا کرتی ہے جہاں سے پلٹ کر دیکھتے ہوئے ہمیں خوف اور سناٹے گھیر لیتے ہیں۔مصحفی غلام ہمدانی نے کہا تھا۔
جو ملا اُس نے بے وفائی کی
کچھ عجب رنگ ہے زمانے کا
ہم غرض کی دنیا کے باسی ہیں، ہمارا مسکن ایسے کرّہ ء ارض پر ہے جو لوبھ اور لالچ سے بھرا پڑا ہے۔یہاں خوب صورت عارض، خوش نما خال و خد اور حسین و جمیل لب و رخسار کے عقب میں بھی کوئی نہ کوئی مطلب ضرور پنہاں ہوتا ہے۔ایک طویل عرصے تک کسی ” سراب “ کی تلاش میں صحرا نوردی کرتے کرتے ہم کوئی جان کاہ عذاب ڈھونڈ لاتے ہیں۔آپ لوگوں پر حُسنِ سلوک اور احسانات کی برسات کرتے چلے جائیں مگر بدلے میں آپ کو بے مروتی ہی ملے گی۔آپ جان و دل سے کسی سے پیار کر کے دیکھ لیں، وہی آپ کا جان سے پیارا شخص آپ کے گرد نفرتوں کے انبار لگا دے گا، اکثر و بشتر لوگوں کا وتیرہ ایسا ہی تو بن چکا ہے کہ وہ ہر احسان کے بدلے میں دشنام طرازی ہی دیتے ہیں۔
بعض اوقات ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ انسانوں کی بے وفائی کے بعد جب ہمیں کوئی جائے اماں نہیں ملتی، جب ہمیں کہیں بھی سستانے کے لیے کوئی سایہ ء عاطفت دِکھائی نہیں دیتا تو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مّحبّت کی روشنی ہمارے اندر سے پھوٹنے لگتی ہے اور اگر کسی بھی شخص کو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مَحبّتوں کی متاع مل جائے تو پھر اُس کا سفر حقیقی مَحبّتوں کی طرف شروع ہو جاتا ہے۔یہ مَحبّت اتنی منزّہ، مقدّس اور مطہّر ہوتی ہے کہ تمام مصنوعی مَحبّتیں حقیر سی لگنے لگتی ہیں، اگر ہر طرح کی دنیوی مَحبّت میں ناکامی و نامرادی کے بعد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مَحبّت کی کرنیں دل میں جگمگانے لگیں تب آپ واقعی خوش نصیب ہیں اور اگر پھر بھی دل اِس سعادت سے محروم رہیں تو پھر رات کے کسی حصّے میں خود اپنے اندر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مَحبّت کے دَر وا کرنے کی جستجو کریں، محض ایسی کوشش کرنے ہی سے دل میں موجود ہر درد اور ہر کسک کی لپک محو ہو جائے گی اور مجھے کہنے دیجیے کہ اللہ کی مَحبّت کے اسلوب بھی تو نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سکھلائے ہیں۔ربیع الاوّل کا یہ ماہِ مبارک محض نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مَحبّت جتانے نہیں بلکہ عملی طور پر ثابت کرنے کا مہینا ہے۔جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چاہت دل میں جاگزیں ہو جائے گی تو پھر یقین کریں باقی ساری مَحبّتیں ہیچ اور پست محسوس ہونے لگیں گی۔اس لیے کہ اُن سے زیادہ حَسین و جمیل کوئی ہے ہی نہیں، اُن جیسا اعلا و ارفع کردار دنیا میں کسی اور انسان کا ہو ہی نہیں سکتا۔کائنات کا سارا حُسن تو نبیِ آخرالزّماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سمٹ آیا ہے، اُن سا خوب صورت انسان چشمِ فلک نے کبھی دیکھا ہی نہیں ” آئینہ ء جمالِ نبوت “ میں حضرت اُمِ معبد رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حُسن و جمال کو جس ادب اور قرینے کے ساتھ بیان کیا ہے وہ حقیقت پر مبنی ایک ادبی شاہ پارہ ہے، آپ بھی پڑھ کر اپنی ایمان افروز مَحبّتوں کی آبیاری کر لیں۔
” مَیں نے ایک معزز شخص کو دیکھا جن کی نفاست نمایاں، چہرہ روشن اور خلقت و بناوٹ میں حسین و جمیل، نہ موٹاپے کا عیب نہ دبلاپے کا نقص، خوش رُو خوب صورت، آنکھیں کشادہ اور سیاہ، پلکیں لمبی، آواز میں کھنک، گردن صراحی دار، ڈاڑھی گھنی، بھویں کمان دار، خاموشی میں وقار کا مجسمہ، گفتگو میں صفائی اور دل کشی، سراپا حسین، جمال میں یگانہ روزگار، دُور سے دیکھو تو حسین تر، قریب سے دیکھو تو شیریں تر اور جمیل ترین، بات چیت میں مٹھاس، نہ زیادہ باتیں کریں اور نہ ضروررت کے وقت خاموش رہیں، گفتگو اس انداز کی جیسے پروئے ہوئے موتی، اگر دو شاخوں کے درمیان ایک شاخ ہو تو وہ دیکھنے میں ان تینوں شاخوں سے زیادہ تروتازہ دِکھائی دیں، قدروقیمت میں سب سے بہتر نظر آئیں، (اُمِ معبد مزید بیان کرتی ہیں، جب مَیں نے اُنھیں دیکھا تو ) اُن کے کچھ جاں نثار بھی ساتھ تھے جو اُنھیں گھیرے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بولتے تو سب خاموش ہوجاتے، کوئی حکم دیتے تو اس کی تعمیل کے لیے ٹوٹ پڑتے، سب کے مخدوم سب کے مطاع، تُرش رُوئی سے پاک اور قابل گرفت باتوں سے مبرّا۔ ”
افتخار نسیم کا شعر ہے۔
اُس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا
آسماں پہ چاند پورا تھا مگر آدھا لگا
یہ حقیقت ہے کہ ہم لوگوں پر احسانات کی برسات بھی کر دیں، ہم اپنا تن، من، دھن بھی کسی پر نچھاور کر دیں تب بھی آنِ واحد میں وہ شخص ہمارے احسانات کو پسِ پشت ڈالنے میں دیر نہیں لگاتا۔ہم اپنے احسانات کے عوض کم از کم اچھے رویّے اور حُسنِ اخلاق کے منتظر رہتے ہیں مگر ہمارے حصّے میں تُرش لہجے اور تلخ نوائی ہی آتی ہے۔اب لوگوں کی خصلت ہی یہ ہو چکی ہے کہ احسان کا بدلہ احسان سے دینے کی بجائے، الٹا احسان کرنے والے ہی کو احسان جتانے کے گناہ بتاتے رہتے ہیں۔آپ سب کی زندگیوں میں کم از کم ایک شخص ضرور ایسا آیا ہو گا جس پر آپ نے اپنی ساری چاہتیں لُٹا دی ہوں گی، جس کے لیے آپ نے اپنا سبھی کچھ تج دیا ہو گا اور پھر اسی شخص نے آپ سے بے مروّتی برتنے میں پہل کی ہو گی، عین وہی شخص آپ کے بدخواہوں میں سرِ فہرست شامل ہو گیا ہو گا، اُس سمے تنومند اور توانا شخص بھی ٹوٹ سا جاتا ہے۔واللہ! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مَحبّت ان تمام نقائص اور عیوب سے پاک ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مَحبّت سے تو ہمہ قسم کے آلام و مصائب ختم ہونے لگتے ہیں، یہی واحد ایسی بے مثل و بے مثال مَحبّت ہے جو محرومیوں اور مجبوریوں سے پاک ہے، جہاں ناکامی نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں۔اگر آپ واقعی دنیا کی مَحبّتوں سے تھک گئے ہیں تو قدم بڑھائیے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مَحبّت کی طرف، دنیا اور آخرت دونوں ہی سنور جائیں گی۔حیدر علی آتش کا شعر ہے۔
دنیا و آخرت میں طلب گار ہیں ترے
حاصل تجھے سمجھتے ہیں دونوں جہاں میں ہم