جب کسی تحریک و تنظیم سے وابستگی کی بدولت کوئی نظریہ بن جائے اور وہ نظریہ جسم و جاں اور قلب و جگر میں سرایت کر جائے، پھر چاہے تنظیم سے وابستہ حضرات تنظیم سے کنارہ کشی اختیار کرلیں یا اس تحریک و تنظیم پر جائز و ناجائز پابندیاں عائد کردی جائیں اس تحریک و تنظیم سے وابستگان کسی بھی شکل و صورت میں نظریے سے دست کَش نہیں ہوتے بلکہ ان کوشش ہوتی ہے کہ نئے لبادوں اور نئے انداز سے اپنی فکر اور نظریے کو لوگوں کے سامنے خوشنما اور دلربا بنا کر” جدید پیکنگ ” میں پیش کیا جائے…
دینی تحریکات سے وابستہ افراد کا سب سے بھونڈا اور کامیاب طریقہ یہ ہوتا ہے کہ پرانے نظریات کو کسی اچھے سے بیوٹیشن سے میک اپ یعنی سولہ سنگھار کرواتے ہوئے بدتمیز افراد کا ٹولہ اکھٹا کرکے ناقدین پر ان کے ذریعے سے یلغار کروائی جائے اور بھولی اور معصوم عوام کے سامنے اہل علم کو تمام مسائل کی جڑ قرار دیتے ہوئے خود کو امت کا حقیقی خیر خواہ قرار دیا جائے…اس کام کے لیے چاہے دین اور اہل دین کے خلاف دن رات کوشاں رہنے والوں کے در پر بیٹھ کر ان کی چچوڑی ہوئی ہڈیاں کیوں نہ کھانی پڑیں…لہٰذا ہم یہی کہہ سکتے ہیں ” ہوشیار باش “.
حافظ عبد العزيز آزاد