قومی کانفرنس کے قائدین کی تقریبا تمام تقاریر سن لیں۔ تقی عثمانی صاحب نے شائد پہلی بار اپنے وقار اور معمول کے بجائے مسئلے کی حساسیت و اہمیت کے مطابق اسلوب اختیار کیا۔ ایسا کہ جس نے بڑے واشگاف الفاظ میں وہ کہہ دیا، جس سے حاکم وقت کے بجائے خدا، سچائی اور ضمیر خوش رہ سکیں۔ انھوں نے قرآنی آیات و احادیث سے قدس کی صورتحال کے تناظر میں اہل ایمان پر فرضیت جہاد کی بات کی اور یہ بھی سمجھایا کہ ایسے موقعوں پر لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا بن جاتی ہے،سراج الحق صاحب کی تقریر بھی بڑی جامع اور دردمندانہ تقریر تھی،خصوصا انھوں نے تقی عثمانی صاحب کی تقریر کے متعلق فرمایا کہ یہ تقریر نہ تھی، حالات کے مطابق فتوی تھا اور فتوی پر عمل کیا جاتا ہے، ساجد میر صاحب نے نے حکمرانوں کو مخاطب کرکے ارشاد کیا کہ اگر ظالموں پر گرفت نہیں کرسکتے تو کم از کم مظلوموں کا فضائی دفاع تو پاکستان کو بہرطور کرنا چاہیے۔

ان کا یہ جملہ بھی بڑا قابل توجہ تھا کہ امت اتنی بھی کمزور نہیں، جتنا کمزور اس نے خود کو سمجھ لیا ہے، ویسے سچی بات اس موقع پر سیاست کی بات کرکے ایک دوسرے سے سکور سیٹل کرنے والے مقرر مجھے پسند نہیں آ سکے۔ کچھ مواقع کچھ اور طرح کے دماغ اور اسلوب کے متقاضی ہوتے ہیں۔ وہ ویسے ہی رہیں تو مناسب ہوتا ہے۔

خیر یہاں کی ہر گفتگو درد مندانہ اور جرات مندانہ تھی۔ ڈاکٹر محمد حماد لکھوی اور قاری صہیب احمد میرمحمدی کی تقاریر بھی دل سے نکلی اور دل میں اترتی محسوس ہوتی تھیں۔ حامد میر نے کہا کہ ایک کوے کے مرنے پر سب کوے جمع ہو جاتے ہیں ،ہم تو پھر انسان ہیں، خصوصا عرب مہمان نے یہ کہہ کر بہت بڑی بات کر دی کہ پاکستان اگر جارح ظالم کو دھمکی دے تو جنگ رک سکتی ہے۔ پاکستان ۔۔۔ اے پاکستان!

یوسف سراج