نہیں ۔۔۔نہیں یہ کبھی باہر نہیں نکلیں گے، یہ محض لوگوں کو ہی احتجاج کرنے کے لیے اکسائیں گے، خود کبھی احتجاج جیسا دشوار گزار کام کرنے کی زحمت نہیں کریں گے۔دنیا کا ایک ” عظیم نجات دہندہ “ گرفتار ہو گیا مگر دیکھ لیں! اس کے جگری ہم نواؤں میں سے کوئی بھی صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے باہر نہیں نکلا، پاکستان کا وہ ” عظیم المرتبت سپوت “ گرفتار کر لیا گیا کہ جو ریاستِ مدینہ کے قیام کا دعوے دار تھا مگر افسوس اس کی گرفتاری پر کسی مسلم ملک نے احتجاج تک نہیں کیا، البتہ کچھ عرصہ قبل اسرائیل نے احتجاج ضرور کیا تھا۔حیرت ہے کہ مراد سعید کہیں روپوش ہو کر میسج کے ذریعے عوام کو ورغلا رہا ہے کہ باہر نکلیں، مگر مراد سعید کے تمام الفاظ اتنے نامراد ثابت ہوئے کہ کسی شخص کے جذبات و احساسات میں ہلکی سی ارتعاش تک نے انگڑائی نہیں لی، شاہ محمود قریشی جیسا باوفا جاں نثار بھی خود نکلا نہ عوام کا کوئی ” جمِ غفیر “ کسی کونے کھدرے سے برآمد کروا سکا۔لٹیروں، چوروں اور ڈاکوؤں سے عوام کی گلو خلاصی کروانے والے کے اپنے چہیتے اور راج دلارے علی امین گنڈا پوری کی ایمان داری کا یہ عالَم بھی دنیا نے دیکھا کہ اس کے گھر سے کووِڈ کے دوران چوری کیا ہُوا مال برآمد ہُوا، وائے افسوس! کہ اس کے گھر سے سیلاب زدگان کا چوری شدہ مال بھی نکل آیا۔
ریاستِ مدینہ کے ” جلیل القدر قائد “ کی گرفتاری پر اس کی اپنی بہنوں کو احتجاج کناں ہونا چاہیے تھا، مگر چشمِ فلک ابھی تک ایسا ایک آدھ منظر دیکھنے کے لیے بھی ترس رہی ہے، حیرت ہے عمران خان کے بہنوئی بھی اپنے برادرِ نسبتی کی پانچ سال کی نااہلی پر گونگے کا گُڑ کھا کر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔جی ہاں! قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد سب سے ” عظیم قائد “ کا لقب حاصل کرنے والے اس سیاسی راہ نما کی تین سال قید کی سزا کے خلاف اس کی زندگی بھر کی ساتھی بشریٰ بی بی کو بھی تو تڑپ اٹھنا چاہیے تھا اور کامل وجد اور بے خودی کے عالَم صدائے احتجاج بلند کرنی چاہیے تھی، مگر بشریٰ بی بی کے لبوں میں ابھی جنبش تک پیدا نہیں ہو سکی۔جو لوگ عمران خان کو نیلسن منڈیلا سے تشبیہہ دیتے تھے وہ بھی بُکل مارے اور دھونی رمائے بیٹھے ہیں اور وہ جو ” خان ” کو ریڈ لائین قرار دیتے نہیں تھکتے تھے، خبر نہیں کہاں رُوپوش ہو گئے ہیں، زاہد فخری کے اشعار ہیں:
خوشی اور دکھ کے موسم سب کے اپنے اپنے ہوتے ہیں
کسی کو اپنے حصّے کا کوئی لمحہ نہیں دیتا
نہ جانے کون ہوتے ہیں جو بازو تھام لیتے ہیں
مصیبت میں سہارا کوئی بھی اپنا نہیں دیتا
مَیں پاکستان کے لوگوں کے ابتر بلکہ بدترین معاشی حالات کا دوش عوام کو بھی ضرور دوں گا جو ہر دل ربا نعرے پر رِیجھ بیٹھتے ہیں، یہ عوام کبھی روٹی، کپڑا اور مکان کے جاں فزا نعرے پر دل دے بیٹھتے ہیں تو کبھی ” جاتی عمرہ “ سے اٹھنے والے غلغلے ” ووٹ کو عزت دو “ پر اپنی، جان، مال اور عزت سب کچھ گنوا بیٹھتے ہیں، کبھی بنی گالا سے بلند ہونے والے فلک شگاف نعرے ” نئے پاکستان “ کے سامنے یہ عوام بچھ بچھ جاتے ہیں تو کبھی یہ کروڑوں نوکریوں اور گھروں کے جھوٹے سپنوں میں الجھ کر ڈھیر ہو جاتے ہیں۔کبھی ان بھولے لوگوں کا دل آئی ایم سے نجات کے مژدوں سے لبھایا جاتا ہے تو کبھی منہگائی کے خاتمے کی بشارتوں پر ان کے دل بَلّیوں اچھلنے لگتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ عوام کی سانسیں کل بھی دُکھتی تھیں، عوام کے دل آج بھی مضطرب ہیں۔اپنے اپنے سیاسی قائد کی عقیدتوں میں گندھے بلکہ بندھے لوگ اگرچہ قلیل ہیں مگر انھیں دل آویز نعروں کی شکل میں کسی جُھنجُھنے یا کسی ڈفلی کی ضرورت ہوتی ہے، جس پر یہ سارا سارا دن عام لوگوں کو بے وقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔سب کی اپنی ڈفلی، سب کے اپنے راگ، سب کے اپنے جُھنجُھنے، سب کے اپنے جھومر۔اظہر عنایتی نے کہا ہے:
وہ تازہ دَم ہیں نئے شعبدے دِکھاتے ہوئے
عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
کبھی اس ستم زدہ عوام کو کروڑوں نوکریوں کے فریب میں مبتلا کیا جاتا ہے تو کبھی لاکھوں گھروں کے جھوٹے سپنوں میں الجھا دیا جاتا ہے۔اس بار اس ” انوکھے لاڈلے “ نے کھیلن کو چاند مانگنے کے بجائے، پاکستان کے دفاعی اداروں پر حملہ کر کے ایک ایسی منحوس سیاست کو پروان چڑھایا جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔
حیرت ہے کہ پاکستان کے تمام سیاست دانوں کے دل ” عوام کی خدمت “ سے لدے ہوتے ہیں، یہ سارے سیاسی مداری، مُلک کی کایا پلٹ دینے کے لیے اقتدار میں آتے ہیں مگر کایا فقط ان کے اپنے بچوں کی پلٹتی ہے، ان کے اپنے بچے دوسرے ممالک میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان کے اپنے علاج معالجے دوسرے ممالک میں ہوتے ہیں، ان کے اربوں ڈالر پاکستان سے باہر دیگر ممالک کے بنکوں میں ذخیرہ ہوتے ہیں، یہ غریبوں کے نچوڑے گئے لہو سے عیش کوشی کی زندگی گزارتے ہیں اور گزارتے رہیں گے، بھوک، افلاس، ننگ، مفلسی، ناداری اور محتاجی عوام کے حصے میں آتی ہیں اور آتی رہیں گی، اس لیے کہ عوام نے سطحی نعروں پر اپنے دل مطمئن کر کے ان ہی چند سیاسی خانوادوں کے حق میں گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے بازی کرنے کو شعار اور چلن بنا رکھا ہے۔آج ایک ایسے ” عظیم قائد “ کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس کی اقوام متحدہ میں ایک تقریر پر اتنی سیاست کی گئی کہ اس تقریر کے بوجھ تلے سارا پاکستان دب چکا ہے، اس کی تقریر کا بھارتی سفاک فوج پر کوئی اثر نہیں ہُوا، وہ آج بھی مقبوضہ کشمیر میں پہلے سے بڑھ کر ظلم و بہیمیت ڈھا رہی ہے مگر یہ سارا بھارتی جبر و تشدد عمران خان کی ایک تقریر کے عقب میں چُھپ کر رہ گیا ہے۔شاید لوگ اس خوش گمانی میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ اس ایک تقریر کے بعد مقبوضہ کشمیر فتح کر لیا گیا ہے۔
جیل کی یہ ویسی ہی فضائیں ہیں جو نواز شریف سمیت متعدد سیاست دانوں کے حصّے میں آ چکی ہیں، آج عمران خان کو وہ لمحات ضرور یاد آتے ہوں گے جب انھوں نے نواز شریف کو عقوبت خانے میں قید کیا تھا، یہ مکافاتِ عمل ہے، عوام سے کیے گئے وعدوں سے انحراف کی سزا ہے، شاید کہ یہ لوگ سمجھیں۔۔۔!شاید کہ یہ لوگ جانیں۔۔۔!فہد بن خالد کا شعر ہے:
سو بار نظر ڈال تُو ہر ایک عمل پر
اک روز یقینی ہے مکافات کا ہونا

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )