’’علمِ وقف و ابتداء‘‘

قرآنی علوم میں علمِ وقف و ابتداء نہایت اہمیت کا حامل ہے، اسے جاننے کا فائدہ یہ ہے کہ قاری کو معلوم ہو جاتا ہے کہ دورانِ تلاوت کن مقامات پر وقف کیا جانا درست ہے اور کہاں درست نہیں۔ اسی طرح کہاں سے دوبارہ آغاز صحیح ہوگا اور کہاں سے مناسب نہیں ہو گا، اسی لیے بسا اوقات کوئی وقف معنوی اعتبار سے کمال درجے کی خوبصورتی اور جمال پیدا کر دیتا ہے اور اگر کوئی اَناڑی تلاوت کر رہا ہو تو ایسی قبیح صورتوں میں وقف کر دیتا ہے کہ سارا معنی ہی اُلٹ پلٹ ہو جاتا ہے ۔
اس لیے ماہر قراء ہمیشہ سے اِس علم کی اہمیت اجاگر کرتے رہے ہیں، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

تَنْزِلُ السُّورَةُ عَلَى مُحَمَّدٍ ﷺ فَيَتَعَلَّمُ حَلَالَهَا وَحَرَامَهَا وَآمِرَهَا وَزَاجِرَهَا وَمَا يَنْبَغِي أَنْ يُوقَفَ عِنْدَهُ مِنْهَا كَمَا تَتَعَلَّمُونَ أَنْتُمُ الْيَوْمَ الْقُرْآنَ.

’’محمد رسول اللہ ﷺ پر جب کوئی سورت نازل ہوتی تو ہم میں سے ہر کوئی اس میں موجود حلال و حرام کے مسائل سیکھتا اور اس میں وقف کہاں کرنا ہے اسے بھی اُسی طرح سیکھتا جیسے تم آج قرآن مجید پڑھنا سیکھتے ہو۔‘‘ (مشكل الآثار للطحاوي : ٤/ ٨٤، المستدرك للحاكم : ١/ ٩١)
امام ابو جعفر النحاس رحمہ اللہ (٣٣٨هـ) فرماتے ہیں :
’’یہ حدیث دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وقف کو قرآن مجید کی طرح ہی سیکھتے تھے اور اس حدیث کے ابتدائی الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع تھا۔‘‘ (القطع والائتناف، ص:١٢)
امام ابو عمرو الدانی رحمہ اللہ (٤٤٤هـ) فرماتے ہیں :
’’سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اَمر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے توقیفی ہے اور اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔‘‘ (المكتفى في الوقف والابتداء، ص : ١٣٤)
علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ (٨٣٣هـ) فرماتے ہیں :
’’ہمارے ہاں تو اسے (وقف وابتداء) کو سیکھنا اور اس کا اہتمام کرنا سلف صالحین سے متواتر ثابت ہے۔‘‘(النشر في القراءات العشر : ١/ ٢٢٥)
بلکہ وقف و ابتداء کی پاسداری اور لحاظ کرنے پر امام ابن النحاس، ابو عمرو الدانی رحمہما اللہ اور دیگر علماء نے اجماع نقل کیا ہے۔ (فضل علم الوقف والابتداء، للدكتور عبد الله الميموني، ص: ١٢)
اہلِ علم نے وقف و ابتداء کو قرآن مجید کے معانی کی معرفت اور تبیین کا اہم ذریعہ قرار دیا ہے جیسا کہ امام ابو جعفر النحاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’تفصیلِ حروف اور جہاں معنی مکمل ہو جائے وہاں وقف کرنا بھی تبیین میں شامل ہے۔‘‘ (القطع والإئتناف : ١/ ٧٤)
امام ابو بکر اَنباری (٣٢٨هـ) فرماتے ہیں :
’’قرآن مجید کے اعراب، معانی اور غرائب کی معرفتِ تام دراصل وقف و ابتداء کی معرفت میں ہے، لہذا قاری کو چاہیے کہ وہ وقف تام، وقفِ کافی اور وقفِ قبیح کی اچھی طرح معرفت حاصل کرے۔‘‘ (إيضاح الوقف والابتداء: ١/ ١٠٨)
علامہ علم الدین سخاوی رحمہ اللہ (٦٤٣هـ) فرماتے ہیں :
’’علماء نے وقف و ابتداء کی معرفت میں جو علوم مدون کیے ہیں ان سے قرآن مجید کے معانی کی تبیین اور مقاصد کی معرفت حاصل ہوتی ہے، اسی کے ذریعے قرآن کے بحر میں غوطہ زنی ہوتی ہے۔‘‘ (جمال القراء : ٢/ ٥٥٣)
علامہ سیوطی رحمہ اللہ (٩١١هـ) فرماتے ہیں :
’’وقف کا باب بڑا عظیم القدر اور پُر خطر ہے نیز کسی کے لیے قرآن مجید کے معانی کی معرفت اور شرعی دلائل کے استنباط کا ملِکہ فواصل کی معرفت سے ہی پیدا ہوتا ہے۔‘‘ (الإتقان : ١/ ٢٨٣)
یاد رہے کہ یہ فن آسان نہیں بلکہ جب تک قاری دیگر علوم سے کچھ نہ کچھ متعارف نہ ہو، اس کا حق ادا نہیں کر سکتا جیسا کہ علامہ اشمونی رحمہ اللہ (نحو ١١٠٠هـ) فرماتے ہیں :
’’اس فن کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جسے عربی زبان سے اچھا واسطہ ہو، قراءات، تفسیر اور نزولِ قرآن کی لغت کا ماہر ہو ۔‘‘ (منار الهدى في بيان الوقف والابتداء : ١/ ١٢)
لیکن جب سے محض خوبصورت آوازوں کو مقصود ومعیار بنا لیا گیا ہے تب سے وقف اور ابتداء کے ساتھ بھی نہایت ظلم ہونے لگا، اس لیے عوام الناس میں معروف بعض قراء بھی کبھی عجیب و غریب وقف کرتے ہیں جس سے معنی مکمل طور پر ہی بگڑ جاتا ہے، ذیل میں چند مثالیں ہیں :
⇚مثالِ اول : اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ ﴾.

’’محمد ﷺ آپ میں سے کسی مَرد کے والد نہیں ہیں۔‘‘ (الأحزاب : ٤٠)
اس آیت میں ایک ’’قاری صاحب‘‘ کو یوں وقف کرتے سنا گیا :
﴿مَا كَانَ مُحَمَّدٌ﴾
’’محمد ﷺ نہیں ہیں۔‘‘
⇚مثالِ ثانی : اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿يُدْخِلُ مَن يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ ۚ وَالظَّالِمِينَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا﴾.

’’وہ جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ (الدهر : ٣١)
اس میں اگر ﴿والظالمین﴾ پر وقف کر دیں تو ترجمہ کچھ یوں ہو جائے گا:
’’وہ جسے چاہتا ہے اسے، اور ظالموں کو اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے۔‘‘
⇚مثال ثالث: اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ ۘ وَالْمَوْتَىٰ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ﴾

’’(دعوتِ دین تو) قبول صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو سنتے ہیں، رہے جو فوت ہو چکے ہیں تو انہیں اللہ تعالی زندہ کر کے اٹھائیں گے، پھر وہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔‘‘ (الأنعام : ٣٦)
اس آیت میں کسی نے ﴿والموتى﴾ پر وقف کیا تو اس کا معنی یہ بن گیا :
’’دعوت دین تو وہی قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں اور جو فوت ہو چکے ہیں۔‘‘
⇚مثال رابع: اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ﴾

’’اللہ تعالی یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی شخص دوسرے کے متعلق علانیہ بری بات کرے الا یہ کہ اس پر ظلم ہوا ہو۔‘‘ (النساء : ١٤٨)
اس آیت میں ﴿لَا يُحِبُّ اللَّهُ﴾ پر وقف کرنا، یا جیسے پارے کا نام ہی صرف معروف ہے، یہ درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اس سے معنی بالکل ہی غیر درست ہو جاتا ہے :
’’اللہ تعالی پسند نہیں کرتے / اللہ تعالی محبت نہیں کرتے۔‘‘
⇚مثالِ خامس : اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ﴾.

’’اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتے ہیں اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتے ہیں ۔‘‘ (النحل : ٩٠)
اس آیت میں اگر ﴿وَيَنْهَىٰ﴾ پر وقف کر دیا جائے تو معنی یہ ہو جائے گا :
’’اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتے ہیں اور ان سے منع (بھی) کرتے ہیں ۔‘‘
اس کی دیگر بھی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
اگر تو کسی عارضے و مجبوری کی وجہ سے وقف کرنا پڑ جائے تو پیچھے سے ملا کر آیت مکمل کر لی جائے تو حرج نہیں جیسا کہ علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اگر قاری ان جگہوں پر سانس پھولنے کی وجہ سے مجبور ہو جائے یا دورانِ تعلیم یا بطورِ امتحان رک جائے تو وقف بلا خلاف جائز ہو گا۔‘‘ (النشر في القراءات العشر : ١/ ٢٣١)
لیکن باقاعدہ راگ الاپنے کے انداز میں آواز کا سُر لگا کر ان جگہوں پر وقف کرنا نہایت غیر مناسب ہے ۔
لہذا قارئ قرآن کو لازما اس علم سے واسطہ رکھنا چاہیے تاکہ اس کے وقف اور ابتداء معنوی اعتبار سے درست ہوں، اور اس موضوع پر علماء کی تصنیف کردہ کتب کو زیر مطالعہ رکھے، ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

١. القطع والإئتناف لأبي جعفر النحاس (٣٣٨هـ)
٢. الوقف والابتداء في كتاب الله لمحمد بن سعدان الضرير (٢٣١هـ)
٣. إيضاح الوقف والابتداء لابن الأنباري (٣٢٨هـ)
٤. المكتفى في الوقف والابتداء لأبي عمرو الداني (٤٤٤هـ)
٥. منار الهدى في الوقف والابتداء لأشموني (نحو ١١٠٠)
والله أعلم وما توفيقي إلا بالله.

حافظ محمد طاهر

یہ بھی پڑھیں: لیلۃ القدر اور سلف صالحین کا اہتمام