اپنے پاس موجود مادی علوم پر اترانا، ایجادات و جدید فنون کو دینی علوم پر ترجیح دینا اور علمِ وحی کو چھوڑ کر دنیاوی علوم میں مگن رہنا ہمیشہ سے گمراہ اقوام کا وصف رہا ہے، بلکہ بعض قومیں تو اس قدر حد سے نکل جاتی ہیں کہ انہیں اپنے عقلی و فکری علوم کے مقابلے میں وحی کا علم فرسودہ خیالات لگتا ہے، وہ اس سے استہزاء کرتے اور نگاہِ حقارت سے دیکھتے ہیں۔
اللہ تعالی نے اس طرز عمل کا ذکر فرمایا:

﴿فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِندَهُم مِّنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ﴾.

’’پھر جب ان کے رسول، ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تو جو علم ان کے پاس تھا وہ اسی میں مگن رہے اور جس (عذاب) کا وہ مذاق اڑاتے تھے اسی نے انہیں آگھیرا۔‘‘ (الغافر: 83)
یعنی ہر وہ علم جو تعلیماتِ وحی کے مخالف ہو یا دین کے متعلق شکوک و شبہات کا باعث بنے وہ مذموم ہے، جیسا کہ علماء نے لکھا ہے:

في الآية دليل على أن كل علم يناقض الإسلام، أو يقدح فيه، أو يشكك في صحته، فإنه مذموم ممقوت، ومعتقده ليس من أتباع محمد ﷺ.

’’یہ آیت کریمہ دلیل ہے کہ ہر وہ علم جو اسلام سے متناقض ہو، اس کا رد کرے یا اس کی صحت کو مشکوک بنائے وہ مذموم ہے، عذابِ الہی کا باعث ہے، اس پر یقین رکھنے والا محمد کریم ﷺ کے متبعین میں شامل نہیں۔‘‘ (التفسير المیسر)
⇚ مفسر قرآن، شیخ عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’علم سے مرادہر قوم کے اختراعی مذہبی فلسفے اور سائنس اور اپنے ضابطہ حیات سے متعلق قوانین وغیرہ ہیں۔ جب انبیاء ان کے پاس آئے اور انہیں وحی الٰہی کے علم کی دعوت دی تو انہوں نے اپنے ہاں مروجہ علوم کے مقابلہ میں وحی الٰہی کے علم کوہی، ہیچ سمجھا اور اس طرف توجہ ہی نہ دی۔ کہتے ہیں کہ ارسطو حکیم کو، جو خود اپنے فلسفہ الہٰیات کا موجد تھا جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دین کی طرف دعوت دی گئی تو وہ کہنے لگا کہ میں سوچ کر بتاؤں گا۔ بعد میں اس نے یہ جواب دیا کہ ہم خود ہی راہ پائے ہوئے ہیں۔ دوسروں کو ہمیں راہ بتانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ (تیسیر القرآن)
⇚ شیخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’دوسرا مطلب ’’ مِنَ الْعِلْمِ ‘‘ کا دنیوی علم و فن ہے، جس میں وہ مہارت رکھتے تھے، جو درحقیقت علم کا ایک معمولی اور حقیر سا حصہ ہے، کیونکہ اس کا تعلق صرف اس ناپائیدار دنیا کے چند دنوں یا لمحوں کے ساتھ ہے۔ حقیقی اور ابدی علم، یعنی آخرت کے علم سے وہ بالکل بے بہرہ تھے۔ (دیکھیے روم : ۶، ۷) چنانچہ رسولوں کی تشریف آوری پر ایمان لانے اور اطاعت کے بجائے وہ دنیا کے اس حقیر علم پر پھولے اور اکڑے رہے جو انھیں حاصل تھا اور جسے وہ بہت بڑی بات سمجھتے تھے۔ یہ معنی الفاظ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ (تفسیر القرآن الکریم)

محمد طاھر