سوال (1058)

ایک روایت جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے اور شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے ، دونوں کے حکم سامنے ہیں ، اس صورتحال میں کیا کرنا چاہیے ۔

جواب

ایک رائے میں ذکر کرتا ہوں کہ جن روایات کو تدلیس کی وجہ سے ضعیف کہا گیا ہے ان میں شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے موقف کو ترجیح ہوگی اور جن روایات کو تدلیس کے علاوہ کسی اور وجہ سے ضعیف کہا گیا ہے ان میں شیخ البانی رحمہ اللہ کے موقف کو ترجیح ہوگی۔واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ العالم عبد الخالق حفظہ اللہ

تدلیس کے مسئلے میں شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا جو موقف تھا دنیا میں آئمہ نقاد میں سے کسی کا نہیں تھا ، ائمہ نقاد کے احکام کو دیکھیں تو نہ امام البانی رحمہ اللہ اتھارٹی ہیں اور نہ ہی حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ہیں ، لوگ سنن(سنن الترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن النسائی) وغیرہ سے حدیث نقل کرتے ہیں اور صاحب کتاب کے حکم کی طرف التفات نہیں کرتے ہیں اور علامہ البانی رحمہ اللہ اور حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا حکم نقل کر رہے ہوتے ہیں یہ خطا ہے واللہ المستعان

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

اللہ تعالیٰ رحمت فرمائے امام نسائی رحمہ اللہ پر جنہوں نے عظیم کتاب ” السنن الکبری” مرتب فرمائی ، جس میں دو اماموں کے طرز کو جمع کر دیا ، امام بخاری کی طرح فقہ اور امام مسلم کی طرح اختلاف اسناد و متن اور بیان علل اور اس پر مستزاد ، بہت سی احادیث اور روات پر نصا احکام ، لیکن ہم نے اس کتاب سے استفادہ کم کیا ہے ، اسی طرح بیہقی رحمہ اللہ کی کتب خصوصا السنن الکبری

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

اللہ تعالیٰ نے دنوں شخصیات کو قبولیت کا درجہ دیا۔ طالب علم ان کی کتب سے کبھی بھی مستغنی نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کی جہود کو ان کی آخرت میں بخشش کا ذریعہ بنائے۔اور مستفید ہونے والوں اور ان کے حق میں اجر ثابت کرے۔ لیکن تدلیس کے حوالے سے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ موقف آئمہ متقدمین کے موافق نہیں ہے ، متاخرین اصولیوں کے قول پر جس کا ذکر نووی نے شرح مسلم میں کیا ہے ،
“تدلیس کے موضوع پر الشیخ ناصر الفہد حفظہ اللہ کی کتاب دیکھیں”
دوسرا مسئلہ علل کا عدم اہتمام ہے اور ظاہر حدیث پر حکم لگانا ہے۔(الحدیث محدث نمبر میں شیخ عزیز شمس رحمہ اللہ کا مضمون حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے متعلق دیکھئے شیخ رحمہ اللہ نے بھی ان کی تحقیق میں اس عیب کا گلہ کیا ہے) ان دونوں شخصیات نے علل الاحادیث کا اہتمام نہیں کیا۔
بیت سی ایسی احادیث ہیں جنہیں آئمہ کبار ضعیف قرار دیتے ہیں لیکن ان دونوں کے ہاں صحیح ہیں۔
تیسرا مسئلہ اصول کا ہے۔
دونوں متاخرین اصولیوں کے وضع کردہ اصول حدیث پر گامزن رہے۔
متاخرین اصولیوں کے ہاں بہت سے ایسے اصول ہیں (فقہ اور حدیث دونوں میں) جو متکلمین سے لیے گئے ہیں۔
ان کا متقدمین محدثین سے سے بلکہ حدیث پاک کی صحت و ضعف سے کوئی تعلق نہیں۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

یہ بہت بڑا عیب ہے اور دوسرا یہ بہت بڑی وجہ اور سبب ہے جس سے ہم اصلا احکام محدثین اور اس بابت ان کے منہج سے دور ہو گئے اور یہی وجہ ہے امام ترمذی جیسے حاذق ، ناقد ،عارف اور امام العلل کے علم سے محروم ہو گئے ، آئمہ محدثین کی کتب الحدیث کے ساتھ ان کی کتب العلل سے استفادہ کیے بنا آدمی کھبی بھی احادیث پر حکم لگانے میں صحیح راستے پر گامزن نہیں ہو سکتا۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

العصمة لله ولرسوله ولكن الألباني في زماننا كالبخاري في زمانه.”صححه الألباني” و”ضعفه الألباني” كلمة سارت مسار”أخرجه البخاري ومسلم” حتى بدأت تنادى من المنابر من الحرمين وغيرهما!!
فهونوا على أنفسكم ولا تقولوا ما لا تطيقون.
وقضية المتقدمين والمتاخرين بهذه الصورة وهذا السياق لن تقبل من أمثالنا كما لم تقبل ممن تولوا كبرها قبلنا!!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

درست فرمایا ، امامِ وقت کو کچھ تو رعایت دی جانی چاہیے۔ انھیں یوں چٹکیوں میں اڑانا مناسب رویہ نہیں ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

شیخ صحیح فرمایا آپ نے ، لیکن ان کے احکام کو کبار آئمہ محدثین کے احکام پر ترجیح دینا بھی مناسب رویہ نہیں ہے۔

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

گھر کی مرغی دال برابر ، آپ کے معاصر تھے، اس لیے آپ کو کبیر نہیں لگتے۔ شاید سو ڈیڑھ سو سال بعد آنے والے انھیں کبار کی فہرست میں شامل کر لیں ، اسی طرح شیخ عثیمین کے مقام و مرتبہ کو بھی ہنوز سمجھا نہیں گیا۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ دور حاضر کی سب سے بڑی فقہی دانش ہیں اور تعجب نہیں ہوگا مستقبل میں اگر انھیں شوکانی اور شاہ ولی کا ہم پایہ باور کیا گیا ، فقہیات میں تعقل کو جس خوبی اور نفاست سے انھوں نے برتا ہے، وہ صرف انھی کا حصہ ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ