سوال (427)

امام ابن حبان رحمہ اللہ کو سب سے پہلے متساہل کس نے کہا تھا؟

جواب

متعین طور پر کسی شخصیت کا نام لینا مشکل ہے البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسئلہ اصول حدیث کے دیگر کئی مسائل کی طرح باقاعدہ اصول اور قاعدے کے طور پر ابن الصلاح(ت ٦٤٣هـ) اور اس کے بعد کے زمانے میں معروف ہوا ہے۔
حافظ ابن الصلاح صحیح حدیث کی مناسبت سے صحیحین وغیرہ کا ذکر کرنے کے بعد مستدرک الحاکم کے متعلق فرماتے ہیں:

«وَهُوَ وَاسِعُ الْخَطْوِ فِي شَرْطِ الصَّحِيحِ، مُتَسَاهِلٌ فِي الْقَضَاءِ بِهِ…وَيُقَارِبُهُ فِي حُكْمِهِ صَحِيحُ أَبِي حَاتِمِ بْنِ حِبَّانَ الْبُسْتِيِّ». [معرفة أنواع علوم الحديث – ت عتر ص22]

یعنی حاکم کی صحیح کی شرط میں وسعت ہے، اور پھر وہ اس شرط کی پابندی کرنے میں بھی متساہل واقع ہوئے ہیں، پھر فرماتے ہیں کہ صحیح ابن حبان بھی اس سلسلے میں مستدرک کے قریب قریب ہی ہے!!
ابن الصلاح کی اسی عبارت کو لے کر بعد شارحین، ناظمین، منکتین وغیرہ نے اس پر طویل گفتگوئیں فرمائی ہیں، جن میں ایک مسئلہ ابن حبان کے تساہل کا بھی ہے۔
اسی مناسبت سے یہاں حافظ ابن الصلاح کے ایک ہم عصر محدث کا حوالہ بھی پیش کیا جا سکتا ہے، جو کہ عام طور پر اس سلسلے میں ذکر نہیں کیا جاتا۔ امام منذرى (ت ٦٥٦ هـ) الترغيب و الترهيب میں اپنا منہج بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

«وقد أعزوه إلى صحيح ابن حبان ومسند الحاكم إن لم يكن متنه في الصحيحين، وأنبه على كثير مما حضرني حال الإملاء مما تساهل أبو داود رحمه الله تعالى في السكوت عن تضعيفه أو الترمذي في تحسينه أو ابن حبان والحاكم في تصحيحه، لا انتقاداً عليهم رضى الله عنهم بل مقياسا لمتبصر في نظائرها من هذا الكتاب». [الترغيب والترهيب للمنذري – ت عمارة 1/ 38]

یعنی حدیث کا متن اگر صحیحین میں نہ ہوا تو میں اس کو ابن حبان اور حاکم کے حوالے سے بھی بیان کروں گا، اور املاء کرواتے ہوئے جہاں تک ممکن ہوا ان بزرگوں کے تصحیح میں تساہل کی طرف بھی اشارہ کروں گا!!
یہاں حافظ منذری کی عبارت میں دیگر ائمہ کے ساتھ ابن حبان اور حاکم کے تساہل کا واضح طور پر ذکر ہے، یہ الگ بات ہے کہ الترغیب والترہیب میں شاید ہی کسی جگہ انہوں نے کسی جگہ ابن حبان کے تساہل کی طرف اشارہ کیا ہو! بلکہ اکثر انہیں تائید کے سیاق میں ہی ذکر کرتے ہیں!!
شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ شیخ البانی وغیرہ محققین نے منذری کو بھی متساہلین میں شمار کیا ہے اور سلسلتین میں جگہ جگہ اس کا ذکر کیا ہے!
بہرصورت یہاں یہ ذکر کرنا مقصود تھا کہ ابن حبان کے تساہل کا ذکر منذری کے ہاں پایا جاتا ہے۔
منذری اور ابن الصلاح سے پہلے ابن حبان کے تساہل کے پس منظر میں امام حازمی(ت ٥٨٤هـ) کی ایک عبارت ذکر کی جاتی ہے، حالانکہ وہ عبارت اس کے متعلق ہے نہیں ہے، جیسا کہ اس کے سیاق و سباق سے ظاہر ہوتا ہے، امام حاکم کا یہ مشہور مسئلہ ہے کہ بخاری ومسلم کی شرط ہے کہ وہ خبر عزیز سے کم کو قبول نہیں کرتے، امام حازمی(ت ٥٨٤هـ) اس کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“وأما قول الحاكم في القسم الأول: إن اختيار البخاري ومسلم إخراج الحديث عن عدلين إلى النبي صلى الله عليه وسلم…” فهذا غير صحيح طردا وعكسا… وقد صرح بنحو ما قلت من هو أمكن منه في الحديث وهو أبو حاتم محمد بن حبان البستي… ألخ”. [شروط الأئمة الخمسة، ص: 43،44]

اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ وہ امام حاکم کی تردید کر رہے ہیں اور اس کے پس منظر میں امام حاکم کے استاد ابن حبان کا ذکر کر کے ان کے تمکن فی علم الحدیث کی بات کی، تاکہ ابن حبان کے قول سے حاکم کا رد کریں!
لیکن بعض کتابوں میں اس جملے (أمكن منه في الحديث) کو ابن حبان اور حاکم کے تساہل کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے، گویا حازمی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حاکم سے تساہل زیادہ ہوا ہے، جبکہ ابن حبان ان سے زیادہ متمکن تھے، اس لیے ان کے ہاں تساہل کم ہے!! اگرچہ حقیقت ایسے ہی ہے کہ ابن حبان متقدم بھی ہیں، متمکن بھی زیادہ ہیں، ان کی ’صحیح’ مستدرک کے مقابلے میں معتبر بھی زیادہ ہے!! لیکن بہر صورت حازمی(ت ٥٨٤هـ) کا قول یہاں اس پس منظر میں نہیں ہے۔ ورنہ کسی حد تک کہا جا سکتا تھا کہ ابن حبان کے تساہل کے مسئلے کو اوائل زیر بحث لانے والوں میں وہی ہیں!
اس کے بعد حافظ عراقی، ذہبی، ابن حجر وغیرہ نے اس مسئلے کی باقاعد تنظیر و تمثیل بھی کی اور اس کی بنیاد پر رواۃ اور احادیث پر حکم میں بھی جگہ جگہ اس قضیے کا ذکر کیا!
اس کے بعد آج تک اس پر جو کچھ لکھا جا چکا ہے، وہ مستقل ایک لمبی تفصیل ہے، جسے کسی وقت الگ سے ذکر کر دیا جائے گا. ان شاءاللہ۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ