عرصہ ہوا ایک صاحب آن ٹپکے اور فرمانے لگ لگے: مصیبت میں “يا محمد” کہنا تو امام بخاری رحمہ اللہ کا عقیدہ تھا، حیران ہو کر پوچھا : بھئی وہ کیسے؟ بولے : انہوں نے اپنی کتاب “الأدب المفرد” میں روایت نقل کی ہے نا ۔ عرض کی وہ روایت تو ضعیف ہے، ثابت ہی نہیں ۔ کہنے لگے : پھر امام بخاری نے اپنی کتاب میں کیوں نقل؟ پھر اس پر کوئی نقد کیوں نہیں کیا؟ پھر اور تو اور اس پر عنوان باندھا /ہیڈنگ بھی لگائی ۔ لہذا ثابت یہی ہوا کہ “یامحمد” امام بخاری رحمہ اللہ کا عقیدہ تھا۔

عرض کی : بھائی! عصر الروایہ میں محدثین کی تصانیف کا انداز وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں، ان کے ہاں روایت اپنی کتاب میں باسند نقل کر دینا وہ مطلب بالکل نہیں رکھتا جو آپ کے ہاں ہے ۔ لیکن کچھ بحث کے بعد علم ہوا کہ وہ بے چارہ بنیادی اصول اور عصر الروایہ کی تصانیف کے منہج سے بالکل لا بلد ہے۔
ایسا ہی ایک لطیفہ تب ہوا جب وسیلے سے متعلقہ ایک روایت پر ایک بے چارہ یہ کہتا پایا گیا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کا بھی یہی عقیدہ تھا، عرض کی کہ سند ضعیف ہے ۔ کہنے لگے : اگر امام ترمذی کا عقیدہ نہ ہوتا تو وہ ایسی روایت نقل کیوں کرتے جس سے صوفیاء کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے؟ اب عامی تھا اس سے مزید بات عبث لگی تو ہار مان لی۔
یہی بات ایک بندے سے سن کر حیرانی ہوئی جب اس نے کہا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے “دلائل النبوۃ” میں فلاں فلاں روایات نقل کی ہیں جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا حاضر ناضر ہونا، عالم الغیب اور غیبی مدد کرنا ثابت ہوتا ہے ۔ اور یہ کتاب چونکہ اہل حدیث کے ہاں معتبر ہے لہذا ان کا عقیدہ بھی یہی ہے ۔
اسی طرح کا پروپیگنڈہ بعض عقل وعلم سے عاری لوگوں نے کیا تھا کہ امام المفسرين ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے چونکہ اپنی تاریخ میں فلاں فلاں روایات لکھی ہیں لہذا وہ تو اہل سنت میں سے نہیں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔

اس ساری تمہید کا شانِ تحریر یہ ہے کہ ایک “پڑھے لکھے ڈگری ہولڈر، ڈاکٹر صاحب” کو امام لالکائی رحمہ اللہ کی کتاب کا اردو ترجمہ مل گیا ہے اب اگرچہ ان کے متعلق ان کے دوستوں کا دعوی ہے کہ انہوں نے حدیث، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ پر لیکچرز دیئے ہیں، کورسز کروائے ہیں، لیکن آپ دیکھیں گے وہ عن قريب امام لالکائی رحمہ اللہ کی کتاب سے روایات نقل کریں گے یا سکرین شاٹس لگائیں گے اور کہیں گے یہ دیکھیں امام رحمہ اللہ نے یہ روایات نقل کی ہیں، جن میں صوفی کرامات ہیں، بریلوی عقائد ثابت ہوتے ہیں، فلاں باطل نظریے کو تائید ہوتی ہے، کہیں تو صریحاً شرکیہ افعال کی بو آتی ہے ۔ لہذا امام لالکائی کے بھی یہی عقائد تھے اور انہیں سلفیوں نے اپنا امام بنایا ہوا ہے، یہ تو بریلویوں سے بھی گئے گزرے صوفی عقائد والے تھے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
اگر تو وہ ایسا کریں تو اسے ہماری کرامت سمجھ لیجیے گا اور ساتھ جان لیجیے گا کہ ان کے علم کی سطح وہی ہے جو اس بے چارے ریڑھی والے کی تھی جو مصیبت کے وقت “یا محمد” کہنے کو امام بخاری رحمہ اللہ کا عقیدہ کہہ رہا تھا ۔
اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ہم اپنی بدگمانی پر پشیمانی کا اظہار کریں کہ ہم ان کو اس قدر سطحیت والا سمجھ بیٹھے ۔ الحمد للہ ان میں اتنی کامن سینس تو موجود تھی ۔

باقی رہا کہ امام لالکائی رحمہ اللہ اور ان کی کتاب کے متعلق ائمہ محدثین کی آراء تو اسے آئندہ پر اٹھا رکھتے ہیں تاکہ علم ہو کہ کون مطالعہ کرتا ہے اور کون بنا مطالعہ باتیں کر کے اس کی تائید میں علم و دانش سے عاری اسالیب اختیار کرتے ہیں ۔

حافظ محمد طاہر