سرکاری اسکولز کو پرائیوٹ کرنے کی بات اب کی جارہی ہے، حالانکہ اساتذہ نے تو اسے پہلے ہی اپنے ٹیوشن سنٹرز اور اکیڈمیوں کے لیے بچے تلاش کرنے کا ذریعہ بنایا ہوا تھا۔
جتنے بچے اسکول جاتے ہیں، ان کے دماغ میں بات بٹھا دی جاتی ہے کہ صرف اسکول پڑھنا کافی نہیں اکیڈمی میں آنا بھی ضروری ہے!!
ایک بچہ جو اسکول بھي جاتا تھا، اکیڈمی بھی، میں نے کہا آپ دونوں میں سے ایک وقت چلے جایا کریں، اس نے بتایا کہ جو اساتذہ اسکول پڑھاتے ہیں، وہ آدھا سبق اسکول ٹائم پڑھاتے ہیں، اور آدھا اکیڈمی ٹائم میں…!!
اسکول سرکاری ہو یا پرائیوٹ صبح سات آٹھ بجے سے بچہ پڑھنا شروع کرتا ہے اور شام تک مصروف۔ اور دس بارہ سال لگانے کے بعد جب عملی میدان میں آتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ آپ کو کام کرنے کے فلاں فلاں بنیادی سکلز کی ضرورت ہے، جو اس نے کبھی سنی ہی نہیں ہوتیں!!
گورنمنٹ کو بہرصورت کسی نے یہ ضرور بتایا ہوگا کہ سرکاری اسکولز کا حال کوئی نہیں ہے، اساتذہ/ استانیاں جب جی چاہے آ کر چائے شائے منگوا کر، پی کر، اپنے اپنے کاموں کو روانہ ہو جاتے ہیں..!! اور وہ بچے جو فیسز زیادہ ہونے کے سبب سرکاری اسکولوں میں داخلہ لیتے ہیں وہ دوبارہ پھر فیسز بھر کر اکیڈمیاں جوائن کرتے ہیں..!!
یقینا سب لوگ ایسے نہیں ہوں گے، لیکن ایک ٹھیک ٹھاک تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں، جنہیں اپنے رویے پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے!!

اس سے تو کم ازکم دینی مدارس ہی بہتر ہیں، جو درس نظامی بھی پڑھاتے ہیں اور ساتھ اسکولز کی تیاری بھی کرواتے ہیں، اور یہ ڈبل ڈبل تعلیم بچوں کے لیے مفت فراہم کی جاتی ہے اور رہائشی مدرسوں میں ساتھ قیام و طعام کی سہولیات اس پر مستزاد ہوتی ہیں..!!

یہاں ایک لطیفہ سن لیں، ہمارے پاس کچھ بچے کمپیوٹر کلاس کے لیے آتے ہیں، ان کا کچھ دن پہلے اسکول کا رزلٹ آیا تو دو تین بچے فیل تھے۔ حالانکہ اسکول بھی پڑھتے ہیں اور اکیڈمی بھی۔ ہم نے کہا: آپ ایسے کریں سارا کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہمارے پاس آجائیں، آپ کو درس نظامی بھی پڑھائیں گے اور ساتھ اسکول کا بھی اور کمپیوٹر بھی۔ اور آپ اگر فیل بھي ہوجائیں گے تو کم ازکم ہم آپ سے فیس کوئی نہیں لیں گے، کیونکہ اسکول/ اکیڈمی والے آپ کو فیل کروانے کی ماہانہ ہزاروں روپیہ فیس لیتے ہیں، جبکہ ہم آپ کا یہ کام بالکل فری میں کر دیں گے!!
مطلب یہ تھا کہ مدرسے میں آکر آپ کو سب سے بڑا یہی خطرہ لاحق ہو گا کہ میں کہیں اسکول کے امتحان سے فیل نہ ہوجاؤں، تو وہ تو آپ اسکول اور اکیڈمی کی ڈبل ڈبل فیس دے کر بھی ہو رہے ہیں!
جیسے گاؤں کا ماحول ہوتا ہے کہ سارے لوگ ڈاکٹر سے چالیس پچاس کی ’خوراک’ لے کر کھاتے رہتے ہیں، بچنے والے بچ جاتے ہیں اور جن کی عمر پوری ہوچکی ہو وہ اگلے جہاں چلے جاتے ہیں۔ ایک بندہ بیمار ہوا، کھاتا پیتا تھا، بیٹوں نے فورا گاڑی نکالی اور گاؤں کے ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے شہر کے مہنگے ترین ہسپتال میں لے گئے، لاکھوں روپیہ لگایا، انواع و اقسام کی رپورٹیں کروائیں لیکن چند دنوں بعد بزرگ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ گاؤں کا ڈاکٹر جل بھن کر کہنے لگا: بزرگوں کو مارنا ہی تھا تو یہ کام میں نے سو دو سو میں کر دینا تھا…!!

تو احباب گرامی! اگر اسکولز کے یہی حالات ہیں تو بہتر ہے اپنے قریب کی مساجد و مدارس کا انتخاب کرلیں، دنیا تو نہیں کم ازکم آخرت ہی سنوار لیں!
دس دس گھنٹے پڑھا کر اور ہزاروں فیسیں دے کر بھی بچے نے فیل ہونا ہے تو یہ کام مدارس میں پارٹ ٹائم مفت میں بھی کیا جاسکتا ہے! بچے کی بہتری اور خیر خواہی کے بارے میں سوچیں، اسے اپنے سٹیٹس کی جنگ نہ بنائیں کہ فلانے کا بچہ بچی وہاں پڑھ رہا ہے، تو میں نے بھي وہیں پڑھانا ہے، ہوسکتا ہے کہ اسکول کی بجائے مدرسے میں پڑھ کر بچہ دین اور دنیا دونوں اعتبار سے آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ بن جائے!

خیر تفنن برطرف! گزارش یہ ہے کہ سرکاری اسکول ہو یا پرائیوٹ یا مدرسہ، ہر کسی کو چاہیے یومیہ تعلیمی و تدریسی دورانیہ کو ایک محدود وقت میں مکمل کریں اور بقیہ اوقات میں ساتھ ساتھ اضافی اور عملی سکلز اور مہارتیں سکھانے پر توجہ دیں!
مختصر نصاب کو طویل دورانیے میں پڑھانا اور پھر دن رات مختلف ناموں سے ایک ہی چيز کی کلاسز بار بار لگاتے رہنا، اس سے اساتذہ میں بھی سستی آتی ہے اور طلبہ بھی ڈھیٹ بن جاتے ہیں!!

#خیال_خاطر