عن أمير المؤمنين أبي حفصٍ عمرَ بن الخطاب رضي الله
عنه قال: سمعتُ رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ((إنما الأعمال بالنيات، وإنما لكل امرئ ما نوى، فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله، ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأةٍ ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه)).

( صحیح بخاري : 1، صحیح مسلم : 4927).
ترجمہ : امیر المؤمنین ابو حفص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہوگی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس رسول کی خاطر شمار کی جائے گی اور جس کی ہجرت دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہوگی تو اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے.

راوی حدیث کا مختصر تعارف :
نام و نسب : عمر بن الخطاب بن نفيل بن عبدالعزى بن رباح بن عبدالله بن قرط بن رزاح بن عدي بن كعب بن لؤي القرشي العدوي.
والدہ کا نام : حنتمہ بنت ہشام بن مغیرۃ.
لقب : الفاروق. کنیت : ابو حفص.
ولادت : 583ء بمقام مکۃ
وفات : یکم محرم الحرام 24 ھ بمقام مدینہ منورۃ.
روايات حدیث : ابن الملقن رحمہ اللہ کے بقول آپ سے پانچ سو انتالیس احادیث مروی ہیں، جن میں سے چھبیس ” متفق علیہ” ہیں، صحیح بخاری میں منفرد روایات کی تعداد چونتیس اور صحیح مسلم میں ایسی اکیس روایات ہیں.
(الإعلام بفوائد عمدة الأحكام).
حافظِ مغرب علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ آپ کے بارے میں بہت عمدہ تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

كان إسلامه عزًّا ظهر به الإسلام بدعوة النبي صلى الله عليه وسلم، وقد شهد المشاهد كلها، وولي الخلافة بعد أبي بكر، نزل القرآن بموافقته في أشياء، ومناقبه وفضائله كثيرة جدًّا ومشهورة، ولي الخلافة عشر سنين وخمسة أشهر، وقيل: ستة أشهر، وقُتل شهيدًا، طعنه أبو لؤلؤة المجوسي لأربع بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين للهجرة وهو ابن ثلاث وستين. ( الاستيعاب 2/459).

ترجمہ : آپ کا اسلام لانا ( مسلمانوں کے لیے) باعث عزت تھا اور اور ان کے ذریعے دعوت نبی کو تقویت ملی، آپ نے تمام غزوات میں شرکت فرمائی. آپ کے فضائل و مناقب بہت زیادہ اور مشہور و معروف ہیں. دس برس اور پانچ ماہ تک امورِ خلافت سر انجام دیے، یہ بھی منقول ہے کہ دس برس اور چھ ماہ. تیرہ ہجری، ذوالحجہ کے ماہ کے اختتام سے چار روز پہلے جبکہ آپ کی عمر تریسٹھ برس تھی ابو لؤلؤۃ مجوسی ملعون نے آپ کو شہید کر دیا.

لفظی تحلیل :
انما : کلمہء حصر ہے.
الأعمال جمع کا صیغہ ہے جس کی واحد عمل ہے.
النيات بھی جمع ہے جس کی واحد نية ہے. اور یہ اجوف واوی اور ناقص ياي ہے کیونکہ اس کا مادۃ ” ن و ي” ہے.
لغات میں اس کے متعدد معانی مذکور ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں :
دلی ارادہ، عزم، قصد. ( القاموس الوحيد، ص : 1730).
دلی منشا، اصل مقصد، مرضی، خواہش، منصوبہ، عہد، خیال، دھیان. ( جامع علمی اردو لغت، ص : 1538).

اصطلاحی تعریف : هي اعتقاد القلب فعل شيء، وعزمه عليه من غير تردد (المغني 3/68).

ترجمہ : بغیر تردد دل کے پختہ ارادے سے کسی کام کو سرانجام دینے کا ارادہ کرنا نیت کہلاتا ہے.
هجرة : لغوی اعتبار سے عربي، اردو اور فارسی زبان میں یہ لفظ چھوڑنے اور جدائی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے. جیسا کہ جب نبی کریم صلی الله علیه و سلم نے مرضِ موت میں کچھ لکھوانے کے لیے کاغذ قلم منگوانا چاہا تو کچھ شور شرابا ہوا، بعض احباب کا خیال تھا کہ لکھوا لینا چاہیے اور بعض احباب کا کہنا تھا کہ نہ لکھوایا جائے اس گہما گہمی میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ازراہِ شفقت نبی کریم صلی الله علیه و سلم کی ناساز طبیعت دیکھ کر کہا تھا : أهجر؟ (صحیح بخاري: 3168).
يعني کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟
اسی معنی میں علامہ حریری کا ایک شعر ہے :

فاهجر من استغباك هجر القلى وهبه كالملحود مرحبا في رمسه

ترجمہ : تو تم ایسے شخص کو چھوڑ دو جو تمہیں بیوقوف سمجھتا ہے، اسے ایسے چھوڑو جیسے دشمن کو چھوڑا جاتا ہے اور یوں سمجھو جیسے وہ قبر میں مدفون کی طرح ہے.
ایسے ہی اردو زبان میں ہجرت کا لفظ جدائی اور چھوڑنے کے معنی میں مستعمل ہے. جیسا کہ مشہورِ زمانہ شعر ہے:
مضمون درد ہجر کی تاب رقم نہیں
ہے شور ہائے ہائے صریر قلم نہیں
ایسے ہی فارسی میں ایک شعر ہے :
صبر است علاج هجر دانم
اما چہ کنم نمی توانم
ترجمہ : جدائی کا علاج تو بس صبر ہے یہ مجھے پتا ہے مگر میں کیا کروں کہ نہیں کر سکتا.
شرعی معنی : دار الکفر سے دار الإسلام کی طرف اس لیے کوچ کرنا تاکہ دین و ایمان محفوظ رہ سکے. جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :

فَآمَنَ لَهُ لُوطٌ وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إلى رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [العنكبوت: 26].

ترجمہ : تو لوط اس (ابراهیم علیہ السلام) پر ایمان لے آیا اور اس نے کہا بے شک میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں، یقینا وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
اس حدیث شریف کا مقام و مرتبہ :
عبدالرحمن بن مهدي رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

ينبغي لكل من صنف كتابًا أن يبتدئ فيه بهذا الحديث؛ تنبيهًا للطالب على تصحيح النية. ( شرح الأربعين النوويه ،ابن دقیق العيد، ص : 3).

ترجمہ : جو شخص بھی کچھ تصنیف کرنا چاہے اسے چاہیے اپنی کتاب کا آغاز اس حدیث سے کرے تاکہ طالب علم کو نیت کی درستی کی طرف توجہ دلائی جا سکے.
اسی لیے کئی ایک اہلِ علم نے اپنی کتب کا آغاز اسی حدیث سے کیا ہے. جیسا کہ امام بخاری نے ” صحیح بخاری” ، امام نووی نے اپنی ” اربعین ” ، ” رياض الصالحين” اور امام تبریزی نے ” مشکاۃ المصابيح”کا اسی سے آغاز کیا ہے .
نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی بابت لکھتے ہیں :

“أجمع المسلمون على عِظَم موقع هذا الحديث، وكثرة فوائده، وصحته” ( المنھاج 13/47).

ترجمہ : اس حدیث کی عظمت، کثرتِ فوائد اور صحت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے.
عراقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

هذا الحديث قاعدة من قواعد الإسلام حتى قيل: إنه: ثُلُث العلم، وقيل: رُبُعه، وقيل: خُمُسه، وقال الشافعيُّ وأحمدُ: إنه ثلث الإسلام. ( طرح التثريب ⅙).

ترجمہ : یہ حدیث اسلام کے (بنیادی) قاعدوں میں سے ایک قاعدہ ہے. بعض اہل علم کے مطابق یہ اسلام کے ایک تہائی، بعض کے خیال میں ایک چوتھائی، جبکہ بعض کے نزدیک یہ اسلام کے پانچویں حصے کو شامل ہے. امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اسلام کے ایک تہائی حصے پر مشتمل ہے.
مزید برآں امام أحمد – رحمه الله – فرماتے ہیں :

أصول الإسلام على ثلاثة أحاديث: حديث عمر: ((إنما الأعمال بالنيات))، وحديث عائشة: ((مَن أحدَث في أمرنا هذا ما ليس منه، فهو رَدٌّ))، وحديث النعمان بن بشير: ((الحلال بيِّن، والحرام بيِّـن)) (جوامع العلوم والحکم)) 1 /24).

ترجمہ :
اسلام کی بنیاد تین احادیث پر ہے.

عمر رضی اللہ عنہ والی روایت انما الاعمال بالنيات، سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ” من أحدث في أمرنا هذا” اور نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ والی حدیث ” الحلال بين والحرام بين”

مسائل :
1 : نیت دل کے ارادے کا نام ہے لہٰذا زبان سے نیت کرنا درست نہیں ہے.
2 : نیت میں خرابی پیدا ہونے سے اعمال تباہ و برباد ہو جاتے ہیں.
3 : امور مقاصد سے ہیں (عربی: الأمور بمقاصدها‎) اس کا مفہوم ہے کہ امور (اعمال/افعال) اپنے مقاصد (نیت/ارادہ) کے لحاظ سے دیکھیے جائیں گے۔ یہ کلیہ اسی حدیث سے ماخوذ کیا گیا ہے۔ یعنی کسی کام کے بارے جوحکم دیا جائے گا اس کی بنیاد اس مقصد پر ہو گی جو اس کام سے مقصود تھا۔ لوگوں کے اعمال و افعال اور ان کے قولی و فعلی تصرفات کے قانونی نتائج اور احکام کا دارومدار کرنے یا کہنے والے کی نیت اور ارادے پر ہوتا ہے۔ جیسی نیت ہو گی یا ارادہ، ویسا ہی اس قانون یا فعل کا قانونی (فقہی/شرعی) نتیجہ مرتب ہو گا۔
( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: القواعد الفقهية بين الاصالة والتوجيه 3/2).
4 : ہر مسلمان کو چاہیے کہ کوئی بھی عبادت کرتے وقت ” عادت ” اور ” عبادت ” کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھے.
5 : عورتوں کے فتنے سے محفوظ رینا چاہیے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

(فاتقوا الدنيا واتقوا النساء، فإن أول فتنة بني إسرائيل كانت في النساء). صحيح مسلم :

ترجمہ : دنیا داری سے اور عورتوں سے بچو کیونکہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلے عورتوں کا فتنہ ہی آیا تھا.
6 : بغیر کسی شرعی عذر کے کافر ممالک کا سفر کرنا اور وہاں اہل خانہ سمیت مستقبل رہائش رکھنا درست نہیں ہے کیونکہ اس سے اپنے اور ان کے دین و ایمان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے.
نوٹ : اس حدیث کا ایک سببِ ورود بیان کیا جاتا ہے کہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے ایک خاتون سے شادی کرنے کے لیے ہجرت کی تھی تو تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا. لیکن تحقیق کی رو سے یہ بات درست نہیں ہے. اس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمه الله رقمطراز ہیں :

ليس فيه أن حديث الأعمال سيق بسبب ذلك، ولم أرَ في شيء من الطرق ما يقتضي التصريح بذلك، والله أعلم.( فتح الباري 1/16).

ترجمہ : اس حدیث میں یہ مذکور نہیں ہے کہ یہ روایت اس وجہ سے بیان کی گئی ہے. میں اس حدیث کی اسانید میں اس بابت کوئی صراحت دیکھی. والله اعلم.

 حافظ عبد العزيز آزاد