سوال (374)

اسلام میں مشت زنی کا کیا حکم ہے؟ ڈاکٹر ذاکر نائیک اور بعض دوسرے علماء کہتے ہیں کہ یہ صرف مکروہ ہے حرام نہیں۔
اگر حرام ہے تو اسے چھوڑنا کیسا ہے، اگر کوئی چیز برسوں سے نشے میں لگی ہو تو اسے کیسے چھوڑیں؟

جواب

مشت زنی حرام ہے، قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالی ہے:

“وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِفُرُوۡجِهِمۡ حٰفِظُوۡنَۙ ۞ اِلَّا عَلٰٓى اَزۡوَاجِهِمۡ اَوۡ مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُمۡ فَاِنَّهُمۡ غَيۡرُ مَلُوۡمِيۡنَ‌ۚ‏ ۞فَمَنِ ابۡتَغٰى وَرَآءَ ذٰ لِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡعٰدُوۡنَ‌”[المومنون:5 – 7]

«اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے یقینا یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں، لہذا جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں»
یہاں بيويوں اور لونڈیوں کے دو جائز طریقے بیان کرنے کے بعد واضح الفاظ میں ارشاد باری تعالی ہے :

“فمن ابتغى وراء ذلك فأولئك هم العادون” [سورة المؤمنون : 07]

«جو ان کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرتے ہیں وہ حلال کی حد سے حرام کی طرف تجاوز کرنے والے ہیں»
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

” يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، ‏‏‏‏‏‏مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ.” [صحیح البخاری: 5066]

«اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں جسے بھی نکاح کرنے کے لیے مالی طاقت ہو اسے نکاح کرلینا چاہیے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی بوجہ غربت طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑ دے گا۔
خاص اس فعل کی ممانعت میں وارد احادیث میں اگرچہ کلام ہے، لیکن یہ اس کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتی ، کیونکہ قرآن کے عمومی آیات سے اس کی تحریم ثابت ہورہی ہے ، دوسرا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی مختلف مواقع پر صحابہ کرام کو فطری خواہش کے علاج کے لیے شادی کی ترغیب ، یا روزے رکھنے کی ترغیب پر اکتفا کرنا ، اور استمنا جیسے آسان ، سہل اور سستے اور مشقت سے خالی طریقے کی طرف رہنمائی نہ کرنا ، اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ فعل نا جائز ہے ۔
اس فعل کی شناعت میں زنا ، لواطت وغیرہ گناہوں کی طرح صحیح و صریح احادیث کے وارد نہ ہونے کی توجیہ یہ پیش کی جاسکتی ہے ، کہ اس دور میں لوگ اس فعل شنیع کا ارتکاب کرتے ہی نہیں تھے ، کہ اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرنے کی ضرورت پیش آتی۔
کسی بھی چيز کی اڈکشن یا نشہ سے جان چھڑانے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں، مریض کسی ماہر نفسیات سے مل لے، وہ اس کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے، اسے عملی طریقہ کار کی طرف رہنمائی کر سکتے ہیں، جس سے اس نشے سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔
بہر صورت یہاں کچھ عمومی تجاویز ہیں، جو اس سلسلے میں ڈاکٹر فیض الابرار حفظہ اللہ نے ذکر کی ہیں، ان کا خلاصہ پیش خدمت ہے:
(1) : شادی: اس کا سب سے پائیدار حل تو شادی ہے۔ اگر آپ شادی کر سکتے ہیں تو جلد سے جلد کر لیجیے۔ ہمارے ہاں شادی کو بلاوجہ مشکل بنا دیا گیا ہے جس وجہ سے معاشرے میں کئی ایک فسادات نے جنم لیا ہے۔ اگر شادی ہونا مشکل ہو، تو پھر دیگر تجاویز پر عمل کرنے کی کوشش کیجیے۔
(2) : خوراک: اپنی ڈائیٹ کو کنٹرول کیجیے، ایسی چیزوں سے گریز کریں جو جنسی خواہش کو ابھارتی ہیں۔
(3) : روزے: زیادہ سے زیادہ روزے رکھیں تاکہ جنسی خواہش کا زور ٹوٹے۔
(4) : جسمانی ورزش: خود کو جسمانی ورزشوں میں مصروف کیجیے۔ جو کھیل بھی آپ کو پسند ہے، اس میں کچھ وقت صرف کیجیے۔
(5) : اپنے کمپیوٹر اور موبائل وغیرہ کو ایسی جگہ استعمال کریں جہاں دوسروں کی نظر پڑتی ہو۔ اس سے اسکرین کا غلط استعمال کم ہو جائے گا۔
(6) : سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالی کے ساتھ تعلق قائم رکھیے۔ ہو سکے تو صبح ذرا جلدی اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھیے اور اللہ تعالی کے حضور رو رو کر دعا کیجیے۔ جو احساس آپ کے اندر ہے، اسے ہر ممکن طریقے سے زندہ رکھیے!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ