جہنم میں جہاں آگ کا عذاب وہیں سخت ٹھنڈک یا برف کا عذاب بھی ہو گا، اس کے متعلق بعض نصوص میں اشارہ ملتا ہے ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اِشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا، فَقَالَتْ : رَبِّ، أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا. فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ ؛ نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ، وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الْحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ

”جہنم نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے میرے رب ! میرے ہی ایک حصے نے دوسرے کو کھالیا ہے ۔ اللہ تعالی نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی، ایک سانس سخت سردی میں اور ایک سخت گرمی میں ۔ تم انتہائی گرمی اور انتہائی سردی جو ان موسموں میں دیکھتے ہو، اس کا یہی سبب ہے۔“
(صحیح بخاری : 3260، صحیح مسلم : 617)
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سخت سردی کا سبب بھی جہنم کے سانس کو قرار دیا ہے ۔
حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) فرماتے ہیں:
”علماء کا کہنا ہے کہ زمہریر سے مراد سخت سردی ہے۔“ (شرح مسلم : 5/ 120)
یہاں اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جہنم کے اسماء میں سے ایک النار (آگ) بھی ہے تو آگ میں برف یا سردی کا عذاب کیسے ممکن ہے؟ اس کے متعلق شارحین حدیث کی رائے ہے کہ جہنم میں عمومی آگ کے عذاب کی وجہ سے اس کا نام “النار” ہے جبکہ اس میں ایسا طبقہ ہوگا جہاں سردی کا عذاب ہو گا۔              (فتح الباری:2/ 19)
امام ابن التين رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اگر کوئی کہے، آگ میں گرمی اور سردی کس طرح جمع ہو سکتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جہنم میں بعض گوشے ہوں گے جہاں آگ ہو گی اور بعض گوشوں میں زمہریر (سخت ٹھنڈک) ہو گی، یہ ایک ہی جگہ نہیں ہوں گے کہ ان کا جمع ہونا محال ہو۔“
(تنویر الحوالک شرح مؤطا مالک للسیوطی : 1/ 30)
بعض علماء نے اس اشکال کا جواب یوں دیا ہے کہ جس اللہ، خالق و مالک نے برف اور آگ کو پیدا کیا ہے وہ انہیں ایک جگہ جمع بھی کر سکتا ہے، اور جہنم ویسے بھی اخروی چیز ہے اسے دنیاوی امور پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ (ایضاً)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”جہنم میں ایسی شدید ٹھنڈک بھی ہے کہ جس کی وجہ سے گوشت ہڈیوں سے اکھڑ کر گر جائے گا حتی کہ پھر دوزخی، جہنم کی آگ مانگیں گے۔“
(حلیۃ الاولیاء لابی نعیم : 5/ 370 وسندہ جید)
⇚ اللہ تعالی عذاب جہنم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَآخَرُ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٌ.

اور دوسری اس کی ہم شکل کئی قسم (کا عذاب بھی ہو گا) ۔ (ص : 58)
اس کی تفسیر میں بھی بعض سلف سے مروی ہے کہ یہاں زمہریر (سخت ٹھنڈ) بھی مراد ہے ۔
(تفسیر عبد الرزاق : 2600 وسندہ جید، تفسير ابن کثیر : 7/ 79)
⇚ اسی طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں:

لَا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا. إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا

”وہ سوائے کھولتے پانی اور غساق (بہتی پیپ) کے، نہ اس میں کوئی ٹھنڈ چکھیں گے اور نہ کوئی پینے کی چیز ۔“ (النبأ : 24 – 25)
نیز فرمایا:

هَذَا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ

”یہ ہے (سزا) سو وہ اسے چکھیں، کھولتا ہوا پانی اور پیپ۔“(ص : 57)
⇚ یہاں “غساق” کی تفسیر میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
”غساق ایسی سخت ٹھنڈک ہو گی جو اپنی ٹھنڈ سے انہیں اسی طرح جلائے گی جیسے آگ اپنی حرارت سے جلائے گی۔“ (تفسير الثعلبي : 8/ 213، تفسير البغوي : 7/ 99)
اس کا یہی معنی امام مجاہد بن جبر رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے ۔ (الزهد لهناد السري : 290 وسندہ ضعیف)
⇚ غساق کا ایک دوسرا معروف معنی زخم سے نکلنے والی پیپ ہے، جسے اکثر مفسرین نے ترجیح دی ہے ۔ (تفسیر طبری : 20/ 130) و اللہ اعلم.
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں عذابِ جہنم سے محفوظ فرمائے ۔ آمین۔

 حافظ محمد طاھر