سوال (3200)
آگ لگنے سے بندہ جل گیا ہے اور وفات پا گیا ہے تو کیا اسے غسل دیا جائے گا یا صرف تیمم کروا دیا جائے گا۔
جواب
میت کو غسل دینا ہوتا ہے لیکن اگر جسم کی ایسی حالت ہے کہ غسل دینا ممکن نہیں تو تیمم کروا دیں۔
قال ابن قدامة رحمه الله: ( والمجدور, والمحترق, والغريق, إذا أمكن غسله غسل, وإن خيف تقطعه بالغسل صب عليه الماء صبا, ولم يمس, فإن خيف تقطعه بالماء لم يغسل, وييمم إن أمكن, كالحي الذي يؤذيه الماء, وإن تعذر غسل الميت لعدم الماء ييمم, وإن تعذر غسل بعضه دون بعض, غسل ما أمكن غسله, وييمم الباقي, كالحي سواء ) انتهى من المغني 2/209
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
اصل تو یہی ہے کہ میت کو غسل دیا جائے اس لیے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم
کا یہی حکم مبارک ہے جیسا کہ حديث المحرم میں ہے: اغسلوه بماء وسدر۔ (أخرجه الشيخان من حديث ابن عباس رضي الله عنهما)۔
اور جیسا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اپنی بیٹی زينب رضي الله عنها کے لیے کہا تھا جب وہ وفات پا چکی تھیں:
اغسلنها ثلاثا، أو خمسا، أو سبعا، أو أكثر من ذلك… (أخرجه البخاري ومسلم عن أم عطية رضي الله عنها)۔
لیکن کسی عذر کے ہوتے ہوئے تیمم کی طرف منتقل ہوا جا سکتا ہے جیسا کہ سوال میں پوچھا گیا ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ۔
صورت مسئولہ میں میت کی حالت دیکھ کر غسل یا تیمم کو اختیار کیا جائے گا، اگر غسل دیا جا سکتا ہے تو غسل دے دیں ورنہ تیمم پر اکتفاء کریں، اور اگر تیمم بھی مکمل طریقے سے نہیں دیا جا سکتا تو پانی چھڑکنے پر اکتفاء کریں۔ یہ مجزئ ہو گا إن شاء الله۔
والله تعالى أعلم والرد إليه أسلم.
فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ