جھنجھوڑنے والی نصیحت

کل بروز جمعہ الشیخ الاصولی حافظ ثناءالله زاهدي حفظہ اللہ مدینہ یونیورسٹی آئے اور طلاب کو جھنجھوڑنے والی نصیحت کی، بلاشبہ علماء کی کتب سے کہیں زیادہ فائدہ ان کی مجلس اور مصاحبت کا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے تو برادرم بدیع الدین بن الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہما اللہ کا شکر گزار ہوں کے انھوں نے اس مجلس کا اہتمام کیا اور اس کا انتظام وانصرام بھی کیا۔ اس کے ساتھ مندوب جنسیہ باکستان عبدالجبار کا ممنون ہوں جنھوں نے جامعہ کا ایک ہال اس سلسلے میں بک کیا۔
الشیخ حفظہ اللہ نے جو پہلی نصیحت کی کہ جب آپ پاکستان سے آئیں تو کوشش کریں کہ کوئی مقصد لے کے آئیں کیونکہ بہت سے طلباء یہاں بغیر مقصد کے آتے اور چلے جاتے ہیں۔
اس کے ساتھ ان کا کہنا تھا یہاں آ کے طلباء کا ذہن سرمایہ دارانہ ہو جاتا ہے اور جو اصل مقصد ہے وہ چھوٹ جاتا ہے۔
اس کے بعد شیخ نے کہا کہ آپ نے کتب پڑھ لیں اور متون حفظ کر لئے لیکن وہ تب تک کسی کام کا نہیں جب تک ساتھ ساتھ اس پہ عمل نہ ہو کیونکہ آخر میں کام عمل نے آنا ہے، ہم علماء کی کتب پڑھتے اور ان کی سیرت کے متعلق صرف اتنا جانتے ہیں کہ فلاں نے حدیث میں کام کیا،فقہ میں کام کیا بھائیو اس کے ساتھ ان کی ایک اور زندگی بھی تھی ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق وہ اصل قابل نمونہ ہے شیخ نے فرمایا: “ایسے بنو کہ مرو نہیں دیکھو امام بخاری رحمہ اللہ آج تک مرے نہیں” یعنی ہر مسلمان ان کا نام لیتا ہے دن میں کئی لوگ ان کے لئے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں تو آپ بھی ایسا کچھ کر کے جاؤ کل کو لوگ آپ کو رحمت اللہ علیہ کہہ سکیں۔ اس کے بعد شیخ نے تعلق باللہ کے حوالے سے کئی واقعات سنائے۔
معروف کرخی مشہور صوفی تھا یہاں شیخ کی مراد موجودہ تصوف نہیں بلکہ زہد ہے کیونکہ شیخ نے فرمایا تصوف تب تک ٹھیک تھا جب تک اس میں وحدت الوجود، وحدہ الشہور اور حلول جیسے تمہاری کن نظریات نہیں آئے تھے تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس معروف کرخی کے گھر جایا کرتے اور اس کی مجلس میں شریک ہوتے (اگرچہ وہ آپ کے ہاتھ ہی شیعہ سے سنی ہوا تھا ان کے شاگرد کہتے علم آپ کے پاس ہے حدیث آپ بیان کرتے تو آپ ادھر کیوں جاتے ہیں تو آپ کہتے تھے تمہارے پاس حدثنا واخبرنا کا علم ہے اس کے پاس اس پہ عمل موجود ہے۔

امام احمد کے پاس ایک خاتون آئیں اور دریافت کیا میں سوت کاتتی ہوں دن میں بھی رات میں بھی جو چاند کی روشنی میں ہوتا ہے تو آیا میں دن اور رات کے سوت کا الگ الگ بتلایا کروں؟ امام نے جواب دیا کوئی حرج نہیں اگر آپ نہیں بتلاتی ہیں تو اس کے بعد امام نے اپنے بیٹے عبداللہ کو بھیجا پتا کر کے آؤ یہ خاتون کون ہے اور کس خاندان سے ہے، وہ پتا کر کے آئے اور بتلایا یہ بشر الحافی رحمہ اللہ (مشہور زاہد جو امام احمد کے ہم زمانہ تھے اور کی بہن ہیں تو امام احمد کہنے لگے اسے ایسے خاندان سے ہی ہونا چاہیے تھا۔
مشہور زاہد جنید بغدادی رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا، صبر کیا ہے؟ انھوں نے کہا اللہ تعالیٰ کی کسی بھی نعمت کو معصیت میں استعمال نہ کرنا شکر ہے، اب دیکھیں کیسی تعریف ہے کہ جو شکر گزار ہے وہ گناہ کر ہی نہیں سکتا۔
شیخ نے مزید پھر اپنی مرحومہ زوجہ محترمہ کے حوالے سے واقعہ سنایا کہ میں اسے اپنے ساتھ مصر کے گیا وہاں ہم وہ میوزیم دیکھنے چلے گئے جہاں فراعنہ مصر کے آثار ہیں، ہم دونوں کو وہاں بہت گھٹن محسوس ہوئی جب مشہور زمانہ فرعون کی حنوط شدہ لاش دیکھنے کی باری آئی میں نے کہا ٹکٹ لاتا تو زوجہ کہنے لگی ایک بات کہوں میں نے کہا ضرور کہنے لگی اس اللہ کے نافرمان کافر کا چہرہ میں مفت میں نہ دیکھوں آپ اس کے لئے ٹکٹ لے رہیں ہیں تو ہم دونوں نے پھر نہ دیکھا اور ویسے ہی واپس ہو لئے۔ (شیخ کی زوجہ محترمہ چند ماہ پہلے وفات پا گئیں اور اسی طرح ایک بیٹا ہارٹ اٹیک سے وفات پا گیا اللہ تعالیٰ دونوں کی مغفرت فرمائے اور شیخ کو خود بھی ہارٹ اٹیک ہوا اللہ تعالیٰ شیخ کو مزید حوصلہ اور صبر عنایت فرمائے)
یہ چند وہ باتیں ہیں جو مجھے یاد رہ گئیں اللہ تعالیٰ شیخ کو اس عمدہ نصیحت پہ جزائے خیر دے۔

عبدالوہاب سلیم

یہ بھی پڑھیں: فتاوى لجنة العلماء کی اشاعت ایک بہترین کاوش