ہمیں غلط فہمیوں کے بھنور سے مکمل طور پر باہر نکل آنا چاہیے، دیکھ لیجیے! امریکی صدر کو غیر رسمی تقریبات میں بھی پاکستان کے ایٹمی اثاثے یاد رہتے ہیں، جو بائیڈن کی یہ دشنام طرازی کہ ” پاکستان شاید دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار غیر منظّم ہیں “ ہمارے تمام سیاست دانوں کے لیے غور و فکر اور فہم و ادراک کے کئی دَر وا کرتی ہے۔
پوچھ لیجیے! تاریخ سے کہ 77 سا قبل ہنستی مسکراتی زندگیوں سے مرتّب ہیروشیما کے دل پر کیا بیتی تھی؟ پھرول لیجیے! اوراقِ گذشتہ کو کہ ایک سفّاک مُلک نے زندگی کی رونقوں سے مزیّن ناگاساکی کی ہواؤں میں ایسا زیر کیوں گھول دیا گیا تھا کہ آج تک اُس کے اثرات اُن دونوں شہروں میں موجود ہیں؟ آپ ہیروشیما کے پارک میں ایٹم بم میموریل میوزیم کو دیکھ لیں، ایٹمی حملے کے بعد کی باقیات، جلی کٹی اشیا، گاڑیاں، الماریاں اور انسانی ڈھانچے دیکھ کر آپ کے کلیجے سُلگ اٹھیں گے۔ڈھائی لاکھ کے قریب انسانوں کو کوئلے کے ڈھانچوں میں تبدیل کر ڈالنے والی اس خوں خوار طاقت سے کوئی نہیں سوال کرتا کہ تُو اِس قدر درندگی کے باوجود بھی امن کا داعی ہے اور پاکستان ہر موقِع پر تیری حمایت کر نے اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے وضع کردہ تمام بین الاقوامی معیاروں کی پیروی کرنے کے باوجود بھی غیر منظّم جوہری ہتھیار رکھنے والا ایک خطرناک ملک کیسے قرار پا گیا ہے؟ حیرت ہے کہ بھارت جیسا دہشت گرد مُلک ہماری سرزمین پر میزائل داغ کر بھی امریکی نظروں میں پُرامن مُلک ہے اور ہم مکمل طور پر پُرامن ہونے کے باوجود بھی خطرناک!
1971 ء کی جنگ جیتنے کے بعد اندرا گاندھی نے فتح کے نشے میں یہ اعلان کیا تھا کہ أج ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر ڈالا، یہی نہیں بلکہ 18 مئی 1974 ء کو بھارت ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کے سامنے چھاتی تان کر کھڑا تھا۔حالات کے گرداب میں پھنسے پاکستان کے پاس ایٹم بم بنانے کے سوا کوئی چارہ ء کار نہ تھا، اگرچہ 1956 ء میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی بنیاد رکھ دی گئی تھی، ڈاکٹر عثمانی اس کا سربراہ بنایا جا چکا تھا مگر ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے جدید خطوط پر سنجیدگی اور متانت کے ساتھ برق رفتاری سے کام کرنے کی ضرورت تھی۔آج شاید پیپلز پارٹی بھی ذوالفقار علی بھٹو کا وہ نعرہ فراموش کر چکی ہے کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔کیا آج بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ وہ کون سے اسباب اور وجوہ تھیں کہ ان کا قائد یہ الفاظ کہنے پر مجبور ہوا؟ وجہ صرف یہ تھی کہ بھارت نے پاکستان کا جینا دوبھر اور محال کر دیا تھا، سو 22 دسمبر 1975 ء کو ایک ایسے شخص کو ہالینڈ سے پاکستان بلایا گیا جو وہاں تیس ہزار ماہانہ تنخواہ چھوڑ کر پاکستان کی بقا کے لیے صرف 3 ہزار ماہانہ تنخواہ لینے پر آمادہ ہو گیا۔آج سارا وطن اسے محسنِ پاکستان کے نام سے یاد کرتا ہے۔31 جولائی 1976 ء کو انجینیَرنگ ریسرچ لیبارٹری کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا۔بھارت کے نتھنوں میں مُونج کا موٹا سا رَسّا ڈالنے کے لیے 1978 ء تک پاکستان یورینیَم کو افزودہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا تھا۔ہنری کسنجر تڑی لگاتا رہا کہ ایٹم بم مت بناؤ۔یہ عجیب طرفہ تماشا تھا کہ محض سات ہزار نو سو بیاسی مربع کلومیٹر پر مشتمل کھجور کی گٹھلی نما اسرائیلی ریاست اور اس کے اندر موجود صرف 59 لاکھ 31 ہزار یہودیوں کی حفاظت کے لیے تو ایٹم بم ناگزیر تھا مگر 7 لاکھ 96 ہزار 96 مربع کلومیٹر پر محیط مملکت، جس کی آبادی آج 22 کروڑ تک پہنچ چکی ہے، کی حفاظت کے لیے ایٹم بم کی کوئی ضرورت نہیں۔ساری دنیا کے یہودیوں کو بھی جمع کیا جائے تو کراچی جتنے رقبے میں سما سکتے ہیں مگر اِس کے باوجود اُن کے ایٹم بموں پر کسی کو کوئی ایک اعتراض تک نہیں۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے آج بھی امریکا کا سب سے بڑا ہدف ہیں۔
بھٹّو گیا، جنرل ضیاء الحق آ گیا مگر اُنھوں نے ایٹمی پروگرام کے تسلسل اور سرعت پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ہنری کسنجر واویلا کرتا رہا کہ پاکستان کا ایٹم بم در اصل اسلامی بم ہے مگر ان تمام دھمکیوں کے باوجود پاکستان 1984 ء تک ایٹم بم بنا چکا تھا۔
11 مئی 1998 ء کو بھارت نے پوکھران میں ایٹم، نیوٹران اور ہائیڈروجن بموں کے تین تجربات کیے اور یہ دھماکے پاکستان کی سرحد سے صرف 93 کلومیٹر کے فاصلے پر کیے تھے۔ساری دنیا بالخصوص امّتِ مسلمہ کی نظریں پاکستان پر ٹک گئی تھیں کہ پاکستان کب اِن دھماکوں کا جواب دے گا؟ پاکستانی دھماکوں کو رکوانے کے لیے امریکا، جاپان، فرانس، برطانیہ اور روس نے پاپڑ بیلنا شروع کر دیے، امریکی نائب وزیرِ خارجہ مسٹر ٹالبوٹ تو پاکستان آ دھمکا اور کھلم کھلا دھمکی دی کہ اگر جوابی ایٹمی دھماکے کیے تو سخت پابندیاں لگا دیں گے۔فرانس، چین، روس، امریکا، بھارت اور برطانیہ ایٹمی دھماکے کریں تو عالمی امن پر خراش تک نہ آئے مگر واحد اسلامی مملکت کے دھماکے رکوانے کے لیے عالَمِ کفر پاگل ہُوا جا رہا تھا۔پھر 28 مئی 1998 ء کا وہ تابناک دن طلوع ہُوا کہ جس نے ملتِ اسلامیہ کو جراَت اور بہادری کے ساتھ ساتھ ایمانی جذبات میں ملفوف ایک اعتماد دیا کہ اب ہم کسی جارح شیطانی طاقت کی بتیسی توڑنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔چاغی کے سنگلاخ پہاڑوں پر نعرہ ء تکبیر کی صدا گونجی اور بھارت کی پھوں پھاں اور امریکی دھمکیاں بھسم ہو کر رہ گئیں، اُس وقت نواز شریف نے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا تھا مگر اب نواز شریف پر بھی بھارتی عشق کا دورہ پڑ چکا ہے۔سارا عالَمِ اسلام آج بھی اس بات پر دُکھی ہے کہ جو وقار اور تمکنت ایک ایٹمی طاقت کی ہوتی ہے وہ ہمارے نا اہل حکمرانوں نے آج تک اسے نہیں دی۔یہاں ایسے ہی حکمران آتے رہے جو امریکی غلامی کو سعادت، افتخار اور اعزاز سمجھتے رہے۔کیا ایٹمی طاقت کی حیثیت یہی ہوتی ہے کہ اس ملک کی فضاؤں کو اسی ملک پر حملے کے لیے استعمال کیا جاتا رہے؟ کیا ایسا خوں چکیدہ منظر دنیا کی کسی بھی ایٹمی ریاست میں دِکھائی دیتا ہے کہ اس کا دشمن مُلک اسی کے شہریوں کو آگ اور بارود میں جھلسانے کے لیے اسی مُلک کو استعمال کرتا رہے۔عقل کی بجائے پیٹ سے سوچنے والے اور بصیرت کی بجائے بصارت سے دیکھنے والے حکمران جب بھی مسندِ اقتدار پر براجمان ہوں گے تو پھر ایسا تو ہو گا۔خدارا! امریکی صدر کے بیان کو ہلکا نہ لیں، بھرپور اور واضح انداز، دوٹوک اور واشگاف الفاظ میں امریکا اور عالمی امن کے ٹھیکیداروں کے ایسے نازیبا بیانات کی مذمت کریں۔