درایت یعنی متن کی تحقیق

آج کل مولانا طارق جمیل صاحب کی وجہ سے ایک مسئلہ زبان زد عام ہو رہا ہے، تو مناسب ہے کہ اس حوالے سے کچھ وضاحت کردی جائے۔
محدثین کے ہاں سند اور متن دونوں کی تحقیق کی جاتی ہے، حدیث کے موضوع/ من گھڑت ہونے پر قرائن میں سے ایک قرینہ اہل علم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس میں کوئی ایسی گپ ماری گئی ہو، جو عملا اور عقلا محال ہو۔
المنار المنیف لابن القیم میں اس کی کئی ایک مثالیں ہیں۔
اسی چیز کو بعض لوگوں کے ہاں ’درایتِ حدیث‘کے نام سے بھی ذکر کیا جاتا ہے۔
لیکن محدثین اور معاصرین کی درایت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ محدثین کے ہاں متنی درایت محض ایک قرینہ کے طور پر لی جاتی ہے، جبکہ معاصرین نے اس کو اصل الاصول سمجھ لیا ہے۔
یعنی جس حدیث کی کوئی سند نہ ہو، یا پھر اس کی سند میں کوئی وجہ ضعف واضح ہو، تو محدثین کہتے تھے کہ اس کے مزید ضعف کی دلیل یہ بھی ہے کہ اس میں فلاں بات کی گئی ہے، جو عقلا محال ہے۔
جبکہ معاصرین/ منکرین حدیث ایک بالکل صحیح السند حدیث کو لے کر اس کا انکار شروع کردیتے ہیں کہ دیکھیں اس میں فلاں چیز عقل سے ماورا ہے، لہذا یہ قابل اعتبار نہیں!!
مولانا طارق جمیل صاحب نے جو خواب بیان کیا ہے، اس پر ضربیں تقسیمیں کر کے ان کی تردید کی جاسکتی ہے، کیونکہ مولانا اس باب میں کافی کمزور اور متساہل واقع ہوئے ہیں، بلکہ موضوع اور من گھڑت واقعات بیان کرنے میں شہرت رکھتے ہیں، لہذا انہیں کمزور/ متہم کے درجے میں رکھ کر ان کی بیان کردہ روایت پر ضربوں تقسیموں والے درایتی وار کیے جا سکتے ہیں، لیکن اگر کوئی معتبر اور ثقہ عالم دین ایسی بات بیان کرے، یا کسی حدیث یا اثر میں بسند صحیح اس طرح کے اذکار ثابت ہوں تو ان پر منٹوں/ گھنٹوں کی تقسیم کر کے تنقید کرنا یہ اہل علم کا طریقہ نہیں، بلکہ یہ عقل پرستوں اور منکرین حدیث کا وتیرہ ہے۔
بعض صحابہ کرام اور سلف صالحین سے بسند صحیح ثابت ہے کہ وہ بہت محدود مدت میں مکمل قرآن کریم کی تلاوت کر لیا کرتے تھے، اسی طرح ان سے بہ کثرت نوافل پڑھنا ثابت ہے، لیکن ضربیں تقسیمیں کرنے والے کئی ایک لوگ اس کا انکار کرتے ہیں، بلکہ اسی طرح مذاق اڑاتے ہیں جس طرح کے آج کل سوشل میڈیا پر مولانا طارق جمیل کا اڑایا جارہا ہے، جو کہ درست منہج نہیں ہے۔
اس کی اگر مناسب توجیہ سمجھنا چاہتے ہیں تو یہ ہے کہ وقت بلاشبہ سب کو 24 گھنٹے ہی میسر ہوتا ہے، لیکن اللہ کے لیے کسی کے وقت میں برکت ڈال دینا اور کسی کو بے برکت ہی رہنے دینا، اس میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ لہذا ’بابرکت’ کو ’بے برکت’ کے ساتھ ملانا یہ قیاس مع الفارق ہے۔
اگر ہر چيز کو ظاہری اعداد و شمار کے حساب سے ہی دیکھا جائے تو پھر ’برکت’ کا تصور ختم ہو جاتا ہے، حالانکہ اہل اسلام کے ہاں برکت کا وجود یہ متفق علیہ عقیدہ ہے!!

اس سلسلے میں دنیاوی ہنر مندی کی مثالیں بھی دی جاسکتی ہیں، مثلا ایک شخص ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ اس نے روزانہ کاؤنٹر پر بیٹھ کر نوٹ گننے ہیں، یا ایک شخص نے روزانہ ہزاروں پیپرز پر مہرین ثبت کرنی ہیں، یا کسی کی ذمہ داری پیکنگ کی ہے، اب یہ لوگ روزانہ کام کر کر کے اس قدر رواں ہوچکے ہوتے ہیں کہ عام آدمی کے لیے مشکل ہی نہیں بالکل محال ہوتا ہے کہ وہ اتنی مدت میں اتنے ہی نوٹ گن لے یا مہریں لگالیں یا پیکنگ کر لے جتنا کام ایک ماہر آدمی کرتا ہے!

ذکر، تلاوت قرآن، تحقیق و کتابت ان سب چيزوں میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روانی آتی ہے، اور ان امور میں منہمک اور منشغل آدمی جس قدر یہ کام کرسکتا ہے ایک عام آدمی کے لیے اس کا تصور کرنا مشکل یا ناممکن ہوتا ہے۔

#خیال_خاطر