سوال (1292)

کرنسی کی زکاة سونے کے اعتبار سے یا چاندی کے اعتبار سے دینی ہے؟

جواب

اس بات میں علماء میں اختلاف ہے اور اختلاف کی اول وجہ نصاب زکوٰۃ میں بنیاد سونے یا چاندی کو مقرر کرنے کی وجہ سے ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں 200 درھم چاندی اور 20 دینار سونے کے برابر قیمت کے ہوتے تھے ، موجودہ زمانہ میں فرق کی وجہ سے جمہور علماء نے چاندی کو بنیاد مقرر کیا ہے ، اسی بنا پر کرنسی اور سونے کی بھی مقدار جب ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہو تو زکوٰۃ دی جائے گی ، بعض علماء اس سے اختلاف کرتے ہوئے سونے کو بنیاد مقرر کرتے ہیں اور ساڑھے سات تولے سونے کی مقدار کے برابر کرنسی اور چاندی پر زکوٰۃ کے قائل ہیں ۔

فضیلۃ الباحث عمر احتشام حفظہ اللہ

اس میں کرنسی کی بنیاد کو بھی شامل کر لیں۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

کرنسی بنیاد نہیں ہے ، بلکے کرنسی کا نصاب سونے یا چاندی کے نصاب کے برابر کیا جاتا ہے
اور بہتر چاندی کے نصاب کے برابر کرنا ہے

فضیلۃ الباحث عمر احتشام حفظہ اللہ

کرنسی کسی نہ کسی بنیاد پر ہے اور اسی طرف اشارہ کیا۔ باقی کسی ایک کو بہتر قرار دینے کے لیے دلیل ہونی چاہیے۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

کرنسی چونکہ اصل نہیں ہے، اس لیے نصاب بنانے میں اعتبار سونے اور چاندی کا ہی کیا جاتا ہے ، اس کی کچھ تفصیل کچھ یوں ہے۔
1: اگر سونا اور چاندی دونوں ہیں تو جس کے ساتھ کرنسی ملانے سے نصاب پورا ہوتا ہو اس کے ساتھ کرنسی ملائی جائے گی۔
2: اگر سونا اور چاندی دونوں ہی نہیں ہیں تو جس کا مرضی اعتبار کر لیں، اختیار ہے، چاندی کا اعتبار کرنا افضل ہے۔
3: اگر صرف سونا ہی ہے تو سونے کیساتھ کرنسی ملائی جائے گی۔
4: اگر صرف چاندی ہے تو چاندی کیساتھ کرنسی ملائی جائے گی۔

فضیلۃ العالم عبد الرحیم حفظہ اللہ