اچھائی برائی دونوں کا موجود ہونا لازم از عقل و فطرت ہے اور یہ شروع ہی سے چلا آرہا ہے بلکہ اگر اچھائی کیساتھ برائی نہ ہوتی تو اچھائی کا ادراک کبھی نہ انسانیت کو ہوتا اور کیا اچھا ہےکیا برا ہے؟ اسکا پیمانہ کبھی نہ بنتا.!
اسکا دار و مدار اس پر ہوتا ہے کہ اسکے مقابلے میں کونسی چیز انسان اور انسانیت کے حق میں زیادہ بہتر ہے؟
اسی لئیے ہم کہتے ہیں کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ پر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر برائی اور ظلم پوری خلق کیلئے نقصان دہ ہے تو یہ معاشرے میں ہے ہی کیوں؟ اسکا جواب سادہ سا ہے.

(بِأَضْدَادِهَا تُعْرَفُ الأَشْيَاءُ)

کسی بھی چیز کے بہتر اور اچھے ہونے کا میعار اسکے مقابل کے اعتبار سے ہوگا اگر برائی ہی نہ ہوتی تو ہمیں اچھائی کا ادراک ہی نہ ہوتا..!
ہم صرف انہی چیزوں کو میزان کرسکتے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں اور اسی کے اعتبار سے فرق اور تناسب کیا جاتا ہے نہ کہ ہم نے آسمانوں پر جھانک کر غیب کی کنجیاں لیکر پہلے ہی سے حق و باطل اور خیر و شر کے پیمانے مقرر کر رکھے ہیں.!
بعض دفعہ تو ایک عارضی مفاد کو ہم بہتر سمجھ رہے ہوتے ہیں حالانکہ بعد میں ہمیں خود ہی احساس ہوتا ہے کہ یہ تو میرے لئیے نقصان دہ تھی پھر ایسا ہماری عقل کیوں ہمیں کرنے کی اجازت دیتی ہے؟
اسکا جواب ہے کہ اس وقت اسکے مقابلے میں کوئی اور آپشن بہتر نہیں تھا اسی لئیے وہی بہتر لگا یہ سادا سا اصول ہے جو شریعت کے مقاصد کا بھی حصہ ہے اسی لئیے ایک اصول فقھاء کے ہاں مشھور ہے کہ” زیادہ نقصان سے بچنے کیلئے تھوڑا نقصان قبول ہے” وہ اس لیے کہ کوئی چیز بری ہے یا اچھی؟ اور کتنی اچھی ہے یا بری؟ اسکا ٹوٹلی معیار اسکے مقابل میں موجود آپشنز کے اعتبار سے ہوتا ہے.!
انسان کسی ایک جرم کی وجہ سے کتنا گناہ اور کسی نیکی کا کتنا مکلف ہے اسکا دار و مدار بھی اسکے پاس موجود اسباب اور رسائی کے اعتبار سے ہوگا. تکلیفِ شرعی کے تمام قواعد و ضوابط اسی سادا سے اصول پر کھڑے ہیں..!
جس طرح کسی برائی یا اچھائی کا ہونا اور اسکے معیار کا تعلق اسکے مقابل چیزوں سے ہے اسی طرح برائی یا اچھائی کے نفاذ یا پروان چڑھنے کا سبب معاشرے کے مجموعی مزاج سے متعلق ہے.
کوئی بھی معاشرہ برائی سے پاک نہیں اور اسی طرح کوئی بھی معاشرہ اچھائی اور اخلاقیات سے خالی نہیں ہوتا، پرانی تہذیبوں میں بھی اخلاقیات کا تصور تھا، بے دین معاشروں میں بھی یہ موریلٹی پرنسیپلز ہوتے ہیں جو کہ خالصتاً انسانی تخلیق ہے۔ دین تو انہیں فطری بنانے کیلئے ان پر بطور حکَم مانا جاتا ہے..!
لیکن بعض اوقات کسی برائی کے پروان چڑھنے کے پیچھے وجہ وہاں کے مقتدر اور با اثر لوگوں کا خود ان برائیوں میں شامل و فعال ہونا ہوتا ہے قرآن میں بھی اسکی صراحت موجود ہے کہ کسی بھی بستی کے عذاب کے پیچھے سب سے پہلے وہاں کے وڈیروں کا بگڑنا ہوتا ہے باقی لوگوں کا فسق بعد میں ہوتا ہے اور ہر نبی کے پہلے دشمن بھی یہی وڈیرے ہوتے تھے.
لیکن کیا کسی معاشرے کے وڈیروں کا فیصلے سے باقی معاشرہ جرم سے آزاد ہوجاتا ہے؟
نہیں کیونکہ برائی کے نفاذ میں معاشرے کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے وڈیرے بھی لوگوں کے بغیر کچھ نہیں ہوتے ظاہر ہے خواص کی بد نیتی کیساتھ ساتھ عوام کی بھی سستی اور مفاد پرستی شامل ہوتی ہے تبھی تو یہ عذاب کے مستحق ٹھہرتے ہیں.
اب معاشرے کے ذمہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی برائی کو سب سے پہلے برا جانیں اور اسکے برا ہونے کو محسوس کریں ساتھ میں دوسرے لوگوں کو بھی برا محسوس کروائیں دین ہو یا انسانی اخلاقیات جو چیز ان دونوں کے خلاف ہوگی ظاھر ہے وہ فطری طور پر ہی غلط ہے اب اسکا احساس کرنا اور کروانا عوام کیلئے غرض و غایت ہے.!
کیونکہ کسی بُرائی اور غلطی کو کم از کم بُرا ماننا ضروری ہے،جب مجموعی طور پر کسی چیز کے لیے لوگوں میں کراہت پیدا ہوتی ہے تو اس کے فوری نہیں تو مستقبل میں اثرات ضرور ہوتے ہیں.!
معاشرہ مجموعی طور پر جس عام چیز سے بہت کراہت رکھتا ہو، وہ چیز زیادہ دیر معاشرے میں نہیں رہتی.
اس وقت دنیا گلوبلائزیشن کے ذریعے ون ویلج کی فام میں تقریباً ڈھل چکی ہے سو اگر یہ کہا جائے کہ ایک لحاظ سے اب دنیا کی تہذیب کے اصول و ضوابط بھی ایک ہی طرز پر ڈھلنا شروع ہوگئے ہیں اور اسکے وڈیروں کا بھی ایک ہی طریقہ ہے تو مبالغہ نہ ہوگا.!
اب ضرورت ہے خود کو چھپا چھپا کر محفوظ ہونے کی کوشش کی بجائے کھل کر اسکا مجموعی طور پر تدارک کیا جائے کم از کم وہ چیزیں جو انسانیت کے مفاد کے خلاف ہیں انکو برا ماننے کیلئے دنیا کے سارے انسان تیار ہیں اور یہی ظلم کو روکنا ہے۔
باقی یہ بھی ایک بیوقوفی ہے کہ کسی غلطی یا بُرائی پر مطلع ہوکر فوراََ سے کسی جنگ میں ملوث ہوکر فاتح بن کر نکلنے کی کوشش میں لگ جایا جائے۔کسی بھی مسئلے پر اپنے اختیار کو سمجھنا چاہیئے اور اس طریقے کے مجاہدانہ جذبات کو تھوڑا سنبھالنا چاہیئے..!

عمیر رمضان