سوال (171)

کھانے کے بعد انگڑائی لینے کا کیا حکم ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ انگڑائی لینے سے سارا کھانا شیطان کے منہ میں چلا جاتا ہے؟

جواب:

کھانا کھانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے جس کے مسنون الفاظ مختلف احادیث میں وارد ہیں:
1- ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دستر خوان اٹھایا جاتا تو آپ فرماتے:

“الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ غَيْرَ مَكْفِيٍّ وَلَا مُوَدَّعٍ وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا”.[صحيح البخاری:5458]

”تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں بہت زیادہ، پاکیزہ اور اس میں برکت ڈالی گئی ہے نہ (یہ کھانا) کفایت کیا گیا (کہ مزید کی ضرورت نہ رہے) اور نہ اسے چھوڑا گیا اور نہ اس سے بے نیاز ہوا جا سکتا ہے، اے ہمارے رب‘‘۔
2- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“من أكل طعاماً فقال: الحمد لله الذي أطعمني هذا ورزقنيه من غير حولٍ مني ولا قوة غفرله ما تقدم من ذنبه”. [سنن الترمذي:3458، سنن ابن ماجه:3285، وحسَّنه الألباني في صحيح الترمذي :3348]
جس شخص نے کھانے کھا کر یہ دعا پڑھی اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ دعا یہ ہے:
“الحمد لله الذي أطعمني هذا ورزقنيه من غير حولٍ مني ولا قوة”.
’’ہر قسم کی تعریف اللہ ہی کے لیے، وہ ذات جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور مجھے یہ رزق عطا کیا، بغیر میری کسی قوت و طاقت کے‘‘۔
3- ابو ايوب انصاري رضي الله عنه بیان کرتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی کھانا یا پینا تناول فرماتے تو یہ دعا پڑھتے:

“الحمد لله الذي أطعم وسقى وسوغه وجعل له مخرجاً”. [ سنن أبي داود:3851 وصححه الألباني]

’’ہر قسم کی تعریف اللہ ہی کے لیے، وہ ذات جس نے کھلایا اور پلایا اور اسے خوش ذائقہ بنایا، اور پھر اسکے لئے خارج ہونے کا راستہ بنایا‘‘۔
4- عبد الرحمن بن جبیر کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آٹھ سال تک خدمت کرنے والے خادم نے بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کھانا پیش کیا جاتا تھا آپ: “بسم اللہ” پڑھ کر شروع کرتے اور جب فارغ ہوتے تو یہ دعا پڑھتے:

“اللَّهُمَّ أَطْعَمْتَ وَأَسقَيْتَ، وَهَدَيْتَ، وَأَحْيَيْتَ، فَلَكَ الْحَمْدُ عَلَى مَا أَعْطَيْتَ”. [مسند أحمد:16159 وصححه الألباني في السلسلة الصحيحة].

’’یا اللہ! توں نے ہی کھلایا، پلایا، ہدایت دی، اور زندہ رکھا، چنانچہ تیری ان عنائتوں پر تیرے لئے ہی تعریفیں ہیں‘‘۔
ان میں سے کوئی بھی دعا کھانے سے فراغت کے بعد پڑھی جاسکتی ہے۔
رہی بات انگڑائی وغیرہ لینے کی، اس کے جائز یا ناجائز ہونے سے متعلق کوئی روایت کبھی سنی پڑھی نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ انگڑائی چونکہ ایک فطری تقاضا ہے، کھانے سے پہلے بعد یا کسی بھی وقت آجائے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ہاں البتہ اس مسئلے کو ایک اور انداز سے دیکھا جاسکتا ہے کہ انگڑائی اصل میں سستی یا نیند کی وجہ سے آتی ہے، جو لوگ کھانا ضرورت سے زائد کھاتے ہیں، انہیں عموما یہ مسئلہ زیادہ ہوتا ہے کہ کھانا کھاتے ہی انگڑائیاں اور جمائیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔
لہذا ایک تو کھانا اعتدال میں رہ کر کھایا جائے، جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“مَا مَلَأَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ”. [سنن الترمذی:2380]

’کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ برا نہیں بھرا۔ آدمی کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں اور اگر اسے ضرور ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک تہائی حصہ کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی رکھے‘۔
دوسری بات یہ ہے کہ جمائی کے آداب میں یہ بات ضرور ہے کہ جمائی کو حتی الامکان روکنے کی کوشش کرنی چاہیے اور منہ پر ہاتھ رکھ لیا جائے، اسی طرح بعض لوگ منہ کھول کر عجیب و غریب قسم کی آوازیں نکالتے ہیں، یہ سب چیزیں شرعا/ اخلاقا ناپسندیدہ ہیں۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ