سوال (305)

“وَيَسۡــئَلُوۡنَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الۡعَفۡوَ‌ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَكَّرُوۡنَۙ”.[سورة البقرة : 219]

’’اور وہ آپ سے پوچھتے ہیں کیا چیز خرچ کریں، کہہ دے جو بہترین ہو۔ اس طرح اللہ تمہارے لیے کھول کر آیات بیان کرتا ہے، تاکہ تم غور و فکر کرو‘‘۔
اس آیت میں “العفو” کا لفظ ہے ،اس کا راجح مفہوم کیا ہے ؟
ضرورت سے زائد چیز یا جو پسندیدہ چیز ہے
کیا اس (ضرورت سے زائد چیز) معنی کو اختیار کرکے یہ کہنا کہ ضرورت سے زائد چیز پر ہمارا حق نہیں ہے اسے اللہ تعالیٰ کے رستے میں خرچ کردینا چاہیے ، یہ کہنا درست ہوگا ؟

جواب:

آپ نے اس میں دو معانی کا ذکر کیا ہے ، اس میں اگرچہ دونوں طرح کے اقوال ملتے ہیں ، غالباً “القاموس” میں العفو کا ترجمہ “خيار الشيء و أجوده” ذکر کیا گیا ہے یعنی “کس چیز کا عمدہ ترین حصہ”
صاحب قاموس کے اس ترجمہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پسندیدہ مال کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا چاہیے ، اس طرح کے کچھ اقوال ملتے ہیں ۔
دوسرا معنی یہ ذکر گیا ہے کہ زائد مال کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا جائے یعنی ایسا مال جو انسان کے اہل و عیال پر خرچ ہونے کے بعد مال بچے اس کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کردینا چاہیے ، اس معنی کی تائید میں ہمارے اسلاف سے اقوال ملتے ہیں ۔
امام طاؤس نے کہا ہے کہ تھوڑا تھوڑا مال اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتے رہنا چاہیے ۔
امام ربیع فرماتے ہیں کہ بہترین مال اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا چاہیے۔
امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ ایسا مال خرچ کریں کہ جس کے بعد آپ محتاج نہ ہوں ۔
اشارتاً یہ بات احادیث میں بھی ملتی ہے ۔
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“دِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي رَقَبَةٍ وَدِينَارٌ تَصَدَّقْتَ بِهِ عَلَى مِسْكِينٍ وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ أَعْظَمُهَا أَجْرًا الَّذِي أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ” [صحیح مسلم : 995]

’’جن دیناروں پر اجر ملتا ہے ان میں سے ایک دینا وہ ہے جسے تو نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ایک دینار وہ ہے جسے تو نے کسی کی گردن کی آزادی کے لیے خرچ کیا ایک دینا ر وہ ہے جسے تو نے مسکین پر صدقہ کیا اور ایک دینار وہ ہے جسے تو نے اپنے گھر والوں پر صرف کیا ان میں سب سے عظیم اجر اس دینار کا ہے جسے تو نے اپنے اہل پر خرچ کیا‘‘۔
سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

“بَيْنَمَا نَحْنُ فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى رَاحِلَةٍ لَهُ، قَالَ: فَجَعَلَ يَصْرِفُ بَصَرَهُ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَ مَعَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ، فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا ظَهْرَ لَهُ، وَمَنْ كَانَ لَهُ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ، فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا زَادَ لَهُ»، قَالَ: فَذَكَرَ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ مَا ذَكَرَ حَتَّى رَأَيْنَا أَنَّهُ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ مِنَّا فِي فَضْلٍ” [صحيح مسلم : 1728]

’’ہم نبی ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، اس اثنا میں ایک آدمی اپنی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، کہا: پھر وہ اپنی نگاہ دائیں بائیں دوڑانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہو، وہ اس کے ذریعے سے ایسے شخص کے ساتھ نیکی کرے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس زائد از ضرورت زادِ راہ ہے وہ اس کے ذریعے سے ایسے شخص کی خیرخواہی کرے جس کے پاس زاد راہ نہیں ہے۔‘‘ کہا: آپ نے مال کی بہت سی اقسام کا ذکر کیا جس طرح کیا، حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ زائد مال پر ہم میں سے کسی کا کوئی حق نہیں ہے‘‘۔
ان احادیث سے معلوم ہوا ہے کہ انسان زائد مال اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرے ۔ باقی پسندیدہ مال خرچ کرنا افضل عمل ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔

“لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ” [سورة آل عمران : 92]

’’تم پوری نیکی ہر گز حاصل نہیں کرو گے، یہاں تک کہ اس میں سے کچھ خرچ کرو جس سے تم محبت رکھتے ہو اور تم جو چیز بھی خرچ کرو گے تو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والاہے‘‘۔
باقی پسندیدہ بھی ہو اور زائد بھی ہو تو یہ عمل دگنا اجر کا باعث بنے گا ۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

ماشاءاللہ شیخ نے کافی و شافی وضاحت کردی ہے، دونوں معنی ہی کتاب وسنت سے ماخوذ ہیں، اس لئے راجح کی بحث نہ ہی ہو تو بہتر ہے واللہ اعلم باقی یہ کہنا علی الاطلاق درست نہیں کہ “ضرورت سے زائد چیز پر ہمارا حق نہیں ہے اسے اللہ کے راستے میں خرچ کردینا چاہئیے۔
کیونکہ شریعت نے بھی اسے افضلیت کا ہی درجہ دیا ہے، اسکی ترغیب دلائی ہے لیکن زکوۃ کی طرح فرض تو نہیں کیا، زکوۃ کا شرعی تناسب بھی ضرورت سے زائد مال رکھنے کا بڑا جواز ہے، بہرحال اس قول سے اشتراکیت کی بو آرہی ہے کہ جو نظام واقعاتی شواہد و نتائج میں بری طرح فیل ہوچکا ہے۔
واللہ اعلم وعلمہ اتم

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ