خواتین کی مردوں کے ساتھ ہر کام  میں شریک ہونے کی مغربی ڈگر تو عام ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ دینی اور مذہبی مجالس اور پرواگراموں میں بھی یہ سلسلہ چل نکلا ہے۔ خواتین اب میلاد اور محفل نعت کے نام پر اپنی آواز کا جادو جگاتی ہیں۔ پروفیشنل نعت خوانوں کی طرف سے نعت خوانی کرنا  ایک  منافع بخش بزنس  بن چکا ہے اس میں مرد نعت خواں تو کافی کامیاب ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی خواتین بھی پیچھے نہیں رہیں۔ یہ سلسلہ پہلے بھی کسی حد تک تھا تو اس سلسلے میں بریلوی علامہ احمد رضا خان بریلوی المعروف اعلی حضرت صاحب سے سوال کیا گیا:
عورت کا بیان میلاد شریف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم زمانی محفل میں بآواز بلند نثر ونظم پڑھنا اور نظم خوش آوازی ولحن کے ساتھ پڑھنا اور مکان سے باہر سے ہمسایہ کے مردوں اور نامحرموں کا سننا تو ایسا پڑھنا جائز ہے یا ناجائز ہے؟ بینوا توجروا.
علامہ بریلوی جوابا لکھتے ہیں:
“عورت کا خوش الحانی سے بآواز ایسا پڑھنا کہ نامحرموں کو اس نغمہ کی آواز جائے حرام ہے.”
(فتاوی رضویہ : 24/ 242)
اسی طرح ان سے سوال ہوا کہ عورتیں باہم گلا ملا کر مولود شریف پڑھتی ہیں اور ان کی آوازیں غیر مرد سنتے ہیں تو اب ان کا اس طریقہ سے مولود شریف پڑھنا ان کے حق میں باعث ثواب کا ہے یا کیا؟؟؟
جوابا لکھتے ہیں:
“عورت کا اس طرح پڑھنا کہ ان کی آواز نامحرم سنیں باعثِ ثواب نہیں بلکہ گناہ ہے. و اللہ تعالی اعلم.”
( فتاوی رضویہ : 24/ 245)
آج کل خواتین کے میلاد کا یہ طریقہ بہت عام ہے بلکہ اب تو سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر باقاعدہ خواتین کی محافل آن لائن نشر کی جاتی ہیں، منع کرنے والے کو وہابی کہہ دیا جاتا ہے حالانکہ یہ عمل تو خود اعلی حضرت بریلوی صاحب کے نزدیک باعث ثواب نہیں بلکہ باعث گناہ ہے۔

 حافظ محمد طاھر