سوال (1272)

کیا عورت عید نماز پڑھا سکتی ہے؟

جواب

عہد رسالت میں تو خواتین کی مردوں سے الگ عید کی جماعت کی مثال نہیں ملتی ہے ، اور ایسا ہونا بھی نہیں تھا ، تاہم جہاں خواتین کا ہی اجتماع ہو اور کوئی خاتون خطبہ دے سکتی ہو تو ان کا الگ سے عید کا اجتماع کرنے کی گنجائش ہے ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

مردوں کو بالکل نہیں ، عورتوں کے لیے بھی آپ علیہ السلام نے مرد امام مقرر کر کے دیا تھا ۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

عید میں اجتماع مقصود ہے ، مرد اور عورتیں مرد امام پر جمع ہوں گی ، عورتوں کا ایسی صورت میں عید ادا کرنا کہ وہ الگ ہوں اور ان کی امامت عورت کروائے یہ بھی مقاصد کے خلاف ہے ۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

ابو داؤد کی روایت میں جو الفاظ ہیں
وامرها ان تؤم اهل دارها.
اس حدیث کی شرح میں شارحین نے لکھا ہے

“ثبت من هذا الحدیث أن إمامة النساء و جماعتهن صحيحة ثابتة من أمر رسول الله”

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

بھائی نماز باجماعت اور خطبہ یا عیدین میں فرق ہے ، باقی عام فرض نمازوں میں جماعت ہو سکتی ہے ، جس میں عورت امامت کروائے ۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

جی علم ہے بس بتانا مقصود یہ تھا کہ جواب میں عمومی نفی نہیں کرنی چاہیے ساتھ وضاحت کر دینی چاہیے کیونکہ بعض اہل علم عام نمازوں کی امامت کے قائل و فاعل نہیں ہیں۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

عام نماز اس کی جماعت عورتوں کے لیے کروا سکتی ہے ۔

امرأة تسأل عن صلاة العيد بالنسبة للنساء حيث لا يوجد لدينا مصلى للنساء ، فأجمع النساء في بيتي وأصلي بهن صلاة العيد ، فما الحكم في ذلك ؟ علما بأن بيتي مستور وبعيد عن الرجال.
فأجاب :
” الحكم في ذلك أن هذا من البدعة ؛ فصلاة العيد إنما تكون جماعة في الرجال ، والمرأة مأمورة بأن تخرج إلى مصلى العيد فتصلى مع الرجال وتكون خلفهم بعيدة عن الاختلاط بهم .
وأما أن تكون صلاة العيد في بيتها فغلط عظيم ؛ فلم يعهد عن النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم ولا عن أصحابه أن النساء يقمن صلاة العيد في البيوت ” .
انتهى من “فتاوى نور على الدرب” (189 /8) .
والله أعلم .

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ