سوال (1110)

کیا بچوں کو اسلامی معلومات دینے کے لیے کارٹون بنائے جا سکتے ہیں ، جیسے دیگر معروف کارٹون ہیں ، اس طرح کا کوئی کارٹون بنانا جو مفید کہانیاں وغیرہ دکھائے
یا دعائیں وغیرہ سکھائے جیسے عبدالھادی کے نام سے ایک سلسلہ موجود ہے۔

جواب

اگر بچوں کے لیے کھیلنے کے لیے کارٹون بنانا جائز ہے تو ان کی تعلیم و تربیت میں ممد و معاون مواد ، کنٹینٹ بنانان ، کریئیٹ کرنا بالاولی جائز ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ شیخ ابن عثیمین وغیرہ دیگر علمائے کرام نے کارٹون کی حلت و حرمت کو مصلحت و منفعت کے ساتھ جوڑا ہے، کہ اگر تو ان کا مواد بچوں کی تعلیم و تربیت میں مفید ہو، تو یہ درست ہیں، اگر اس میں خلاف شرع چیزیں ہوں اور بچوں کی اخلاقیات اور نفسیات پر برے اثرات پڑتے ہوں، تو پھر یہ چيزیں جائز نہیں ہیں ہے ۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

الشیخ وصی اللہ عباس حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث عائشہ سے دلیل درست نہیں کیونکہ جن آثار میں کھلونوں کا ذکر آتا ہے وہ اس طرح کے کھلونے نہیں جو ہمارے زمانے میں ہیں ، جن کی پوری شکلیں آنکھوں ، ناک کان وغیرہ سمیت بنائی جاتی ہے ، اصل یہی ہے کہ اس طرح کے کھلونے بھی حرام ہیں تصویر کی اصل حرمت وارد ہونے کی وجہ سے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

شیخ وہ اس طرح کے کھلونے نہیں تھے ، اس کی کیا دلیل ہے ؟

فضیلۃ الباحث اسداللہ بھمبھوی حفظہ اللہ

بلکہ ہمارے زمانے کے کھلونے اس طرح سے ہیں کہ ان میں مثلا گڑیا ہی کو دیکھ لیں تو اس کے پورے جسم کے اعضاء وضع کیے جاتے ہیں اور اوپر فحش بناوٹ کے کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔
باقی جدید آلات سے تعلیم و تربیت کا سلسلہ ممدوح چیز ہے “جیسا کہ دارلسلام نے باب اسلام کے ذریعے اس کا انتظام کیا، لیکن تصویر سے بچا جائے ،بھائی جان ہاتھ سے بنایا جانے والا کھلونا کس طرح ہو گا؟!
اور بعض آثار میں روئی کے کھلونوں کا ذکر ہے تو کیا وہ ہمارے موجود پلاسٹک کے کھلونوں کی طرح تھے ؟
جن کی اشکال اور صورتیں مکمل خراش و تراش سے وضع کی جاتی ہیں؟

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

چاہے کچھ فرق ہو بہرحال کھلونے تو تھے نہ!
اور وہ بھی جاندار کے ، دیگر تصاویر بھی ہمارے زمانے جیسی نہیں تھیں انکو تو حرام قرار دے دیا گیا ، لیکن بچوں کے کھلونوں کے متعلق کچھ گنجائش رکھی گئی ہے!

فضیلۃ الباحث اسداللہ بھمبھوی حفظہ اللہ